ملکہ نور جہاں 17ویں صدی میں ہندوستان کی سب سے بااثر خاتون تھیں جنھوں نے وسیع و عریض مغل سلطنت کی فرمانروائی میں تاریخی کردار ادا کیا۔
تاریخ داں روبی لال وضاحت کرتی ہیں کہ آج یعنی حال کو سمجھنے کے لیے نور جہاں کے دورِ حکومت کی تاریخ کو سمجھنا ضروری کیوں ہے۔
پیدائش کے وقت ان کا نام مہرالنسا رکھا گیا تھا لیکن ان کے خاوند اور مغل بادشاہ نے انھیں نام نور جہاں (دنیا کی روشنی) کا خطاب عنایت کیا۔ وہ ملکہ الزبتھ اول کی پیدائش کی چند دہائی بعد ہی پیدا ہوئیں لیکن انھوں نے اپنی برطانوی ہم منصب سے کہیں زیادہ متنوع خطے پر حکمرانی کی۔
مغلوں نے 16ویں صدی کے اوائل میں اپنی سلطنت کے قیام سے لے کر برصغیر پر 300 سال سے زیادہ عرصے تک حکومت کی۔ یہ انڈیا کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ طاقتور سلطنت تھی۔ اس سلطنت کے بہت سے بادشاہ، نورجہاں سمیت شاہی خواتین اور بیگمات نے فن، موسیقی اور فن تعمیر کی سرپرستی کی اور انھوں نے بڑے شہر، عالیشان قصر، مساجد اور مقبرے تعمیر کروائے۔
اس سلطنت کی واحد خاتون حکمراں ہونے کے ناطے نور جہاں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی لوک کہانیوں میں ہر جگہ موجود ہیں۔ ان پر ناول لکھے گئے ہیں، فلمیں بنائی گئی ہیں اور ڈرامے نشر ہوئے ہیں۔
مغل عہد اور نورجہاں کے دور کے دوبڑے شہر شمالی ہندوستانی شہر آگرہ اور شمالی پاکستانی شہر لاہور کے گھروں میں ان کے متعلق کہانیوں کی بھرمار ہے۔ بوڑھے بوڑھیاں، سیاحوں کے گائیڈ اور جوشیلے تاریخ داں نورجہاں اور جہانگیر کی ملاقات اور محبت میں گرفتار ہونے کے قصے اور ایک آدم خور شیر سے ایک گاؤں کو بچانے کا قصہ اپنے اپنے انداز میں بیان کرتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے ایک ہاتھی پر سوار ہو کر اپنی بندوق سے شیر کو ڈھیر کر دیا۔
لوگوں نے ان کی محبت اور بہادری کے قصے تو سن رکھے ہیں لیکن وہ ان کی سیاسی فراست، بلند حوصلگی اور ان کی سرگرم عملی دنیا کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ وہ ایک دلفریف خاتون تھیں جنھوں نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ایک وسیع سلطنت پر حکومت کی۔
وہ شاعرہ، ماہر شکاری اور ماہر فن تعمیر تھیں۔ اپنے والدین کے لیے انھوں نے آگرہ میں مقبرے کا جو ڈیزائن تیار کیا تھا اس کی جلوہ گری بعد میں تاج محل میں نظر آتی ہے۔
مردوں کی دنیا میں نمایاں کردار ادا کرنے والی ملکہ نورجہاں شاہی خاندان سے بھی نہیں آتی تھیں۔ تاہم انھوں نے بادشاہ کے حرم سے ایک زیرک سیاست داں اور جہانگیر کی پسندیدہ بیوی کے طور پر بام عروج پر پہنچیں اور ایک شریک سلطان کی طرح مغل سلطنت پر حکومت کی۔
ایسے میں جبکہ خواتین حکومت کے کام میں شاذ و نادر ہی دخل رکھتی تھیں آخر نور جہاں اتنی طاقتور کیسے بنيں؟
اس کا سہرا بہت حد تک ان کی پرورش، ان کے گرد ان کے حامی مرد و زن کے نیٹ ورک، جہانگیر کے ساتھ خاص تعلق، ان کی جاہ طلبی اور ان کے وطن اور ان کے لوگوں کے سر جاتا ہے۔
عرب اور فارس کے لوگ سندھ دریا کے پار والے اس خطے کو ہند کے نام سے پکارتے تھے اور ہند کی تکثیرت پسند، مالامال اور روادار تہذیب نے مختلف حسیات، مذاہب اور روایات کو ایک ساتھ قائم رہنے کا موقع فراہم کیا۔
نور جہان 1577 میں قندہار (آج کے افغانستان) کے ایک معزز ایرانی گھرانے میں پیدا ہوئیں جنھوں نے صفوی دور میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے نتیجے میں اپنا ملک چھوڑ کر زیادہ روادار مغل سلطنت میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
اپنے والدین کے ملک اور اپنے نئے وطن کی مخلوط روایت میں پروان چڑھنے والی نور جہاں کی پہلے مغل حکومت کے ایک اہل کار شیرافگن سے سنہ 1594 میں شادی ہوئی۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ مشرقی ہند کے امیر صوبے بنگال منتقل ہو گئیں جہاں ان کا واحد بچہ پیدا ہوا۔
جب ان کے شوہر پر جہانگیر کے خلاف سازش میں شامل ہونے کا شبہ پیدا ہوا تو بادشاہ نے بنگال کے گورنر کو اسے اپنے دربار آگرہ میں پیش کرنے حکم دیا۔ لیکن نور جہاں کا شوہر گورنر کے آدمیوں کے ساتھ تصادم میں مارا گیا۔
بیوہ نور جہاں کو جہانگیر کے حرم میں پناہ ملی جہاں دوسری خواتین نے ان پر اعتماد کرنا اور ان کی تعریف کرنا شروع کر دیا۔ نور جہاں نے جہانگیر سے سنہ 1611 میں شادی کی اور وہ اس کی 20 ویں اور آخری بیوی ہوئيں۔
ہر چند کہ درباری ریکارڈ میں بہت کم خواتین کا ذکر درج کیا جاتا تھا لیکن جہانگیر نے سنہ 1614 کے بعد اپنے روزنامچے میں نور جہاں کے ساتھ اپنے مخصوص رشتے کا ذکر کرنا شروع کیا۔ اور انھوں نے نورجہاں کا توصیفی خاکہ پیش کیا کہ وہ حساس ساتھی ہیں، ایک شاندار خیال رکھنے والی ہیں، ایک ماہر مشورہ دینے والی، ایک اچھی شکاری، سفیر اور فن کی پرستار ہیں۔
بہت سے تاريخ دانوں کا خیال ہے کہ جہانگیر شراب کی مریضانہ لت کا شکار تھا جسے حکومت پر توجہ دینے کی طاقت نہیں تھی اور اسی لیے اس نے اپنی حکومت کی عنان نور جہاں کے ہاتھوں میں سونپ دی تھی۔ لیکن اس میں مکمل صداقت نہیں ہے۔
یہ سچ ہے کہ بادشاہ بلانوش تھا اور افیم کا دھواں اڑاتا تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ وہ اپنی بیگم سے بہت محبت کرتا تھا۔ لیکن یہ نور جہاں کے ایک اہم حکمراں بننے کی وجوہات نہیں ہیں۔ در اصل نور جہاں اور جہانگیر ایک دوسرے کو مکمل کرتے تھے اور بادشاہ اپنی بيگم کے شریک حکمراں ہونے کے بوجھ سے کبھی غیر مطمئن نہیں ہوا۔
شادی کے فورا بعد نور جہاں نے اپنے ایک ملازم کی زمین کے تحفظ کے لیے ایک شاہی فرمان جاری کیا۔ ان کے فرمان میں ‘نورجہاں پادشاہ بیگم’ لکھا تھا۔ اور یہ ان کی مطلق العنانی اور ان کے اختیارات میں ترقی کی علامت تھا۔
سنہ 1617 میں سونے اور چاندی کے سکوں پر جہانگیر کے نام کے ساتھ ان کا نام بھی کندہ ہونے لگا۔ دربار کے واقعہ نویس، غیرملکی سفیر، تجار اور درباری جلد ہی ان کی اہمیت کو محسوس کرنے لگے۔
ایک درباری نے ایک واقعہ بیان کیا کہ کس طرح انھوں نے مردوں کے لیے مخصوص شاہی بالاخانے پر آکر لوگوں کو حیران کر دیا۔ یہ ان کی حکم عدولی کی واحد مثال نہیں۔
شکار کرنا ہو، یا شاہی فرمان اور سکے جاری کرنا ہو، سرکاری عمارات ڈیزائن کرنا ہو یا غریب خواتین کی امداد کے کام کرنا ہو یا پسماندوں کی آواز اٹھانا ہو نور جہاں نے ایسی زندگی گزاری جو اس وقت کی خواتین کے لیے لیے غیر معمولی تھی۔
انھوں نے بادشاہ کے قید کیے جانے کے بعد ان کو بچانے کے لیے فوج کی قیادت بھی کی جو کہ ایسا ہمت والا کام تھا جس سے ان کا نام عوام کی یادداشت اور تاریخ میں نقش ہو کر رہ گیا ہے۔
(بشکریہ: بی بی سی )