تحریر: کلیم الحفیظ ۔نئی دہلی
کانگریس کے سابق صدرنے کہا کہ یہ ملک ہندوئوں کا ہے مگر ہندتووادیوں کا نہیں ہے ۔ان کے بقول گوڈسے ہندوتووادی تھا اور مہاتما گاندھی ہندو تھے۔لیکن وہ یہ کیوں بھول گئے کہ بھارت میں تقریباً 40فیصد لوگ وہ ہیں جو نہ ہندو ہیں اور نہ ہندتو وادی،جس میں 15فیصد مسلمان،15فیصد بودھ،2فیصد سکھ،3فیصد عیسائی ہیں۔ان کے علاوہ کہنے کو تو پارسی،جینی،دلت،ناگا,لنگایت وغیرہ بھی خود کو ہندو تسلیم نہیں کرتے ۔اگر ان تمام طبقوں کو شمار کیا جائے تو ہندو اقلیت میں آجائیں گے۔کانگریس لیڈر نے کس بنیاد پر کہہ دیا کہ یہ ملک ہندوئوں کا ہے۔کانگریس کو حکومت بدر کرنے میں دراصل اسی طرح کے بیانات اور خیالات کا ہاتھ ہے۔ایمرجنسی کے بعد جب دوبارہ کانگریس کی حکومت بنی ،اسی وقت سے اس نے نرم ہندتو کی راہ اپنا لی تھی۔بابری مسجد کا تالا کھولنے،مندر کا سنگ بنیاد کرنے،انتخابی مہمات میں ناریل پھوڑنے،مندروں کے درشن کرنے سے لے کر مہنتوں کے پیر چھونے کے کام نرم ہندتو کا پتا دیتے ہیں۔کانگریس یہ بھول گئی کہ جو لوگ سیکولرزم کے بجائے مذہب کو ترجیح دیں گے وہ نرم ہندتو کو کیوں پسند کریں گے ،انھیں تو گوڈسے والا ہندتوہی پسند آئے گا۔
ایک سیکولرزم تو وہ ہے جس میں مذہب کو کوئی جگہ نہیں ،دوسرا سیکولرزم وہ ہے جہاں ریاست اور حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ،وہ تمام مذاہب کے یکساں احترام پر یقین رکھتی اور عمل کرتی ہے۔اس لحاظ سے اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اپنے مذہب پر عمل کرتا ہے تو کوئی بات نہیں لیکن اگر وہ سیاسی لیڈر ،یا سیاسی جماعت کے صدر کی حیثیت میں مذہبی رسوم ادا کرتا ہے تو یہ بھارتی سیکولرزم کے منافی ہے۔جمہوریت کا گلا تو مودی جی نے گھونٹ دیا۔تمام جمہوری ادارے اپنا کردار بھول گئے،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ر نجن گوگوئی کی شراب پارٹی نے جمہوریت کی چتا جلا دی،موجودہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں صحافیوں کے داخلے پر پابندی نے اظہار رائے کی آزادی کی پول کھول دی،درجنوں صحافیوں کو سچ بولنے کے جرم میںجیلوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا جس نے اپنا قلم بیچنے سے انکار کردیا اس کا ہاتھ ہی توڑ دیا گیا،غرض ہر ادارے میں جمہوریت کی روح ختم کردی گئی ،بی جے پی نے جمہوریت کا گلا گھونٹا ،سمجھ میں آتا ہے لیکن کانگریس کا سیکولرزم کہاں چلا گیاہے ۔راہل گاندھی کے بیان نے سیکولرزم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔
بھارتی سیکولرزم کی یہ خوبی تھی کہ یہاں عید اور دیوالی مل کر منائی جاتی تھی،یہاں درجنوں غیر مسلم شعرا ء حضرت محمد ﷺ کی شان میں نعت لکھتے تھے،انھیں محمدؐ کی جن کے نام سے آج فاشسٹوں کو قے ہوتی ہے۔یہاں رس خان شری کرشن کے ایسے عقیدت مند تھے کے ورنداون کو ہی اپنا گھر بنالیاتھا،یہاں نظیر اکبر آبادی تھے جنھوں نے ہندو تیوہاروں پر درجنوں نظمیں لکھیں۔مگر آج وہی بھارت ہے جہاں مسلمانوں کی داڑھی،ٹوپی،کرتے پائجامے سے نفرت ہے،یہ وہی بھارت تھا کہ پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی ،کی زبان اور لباس سے لوگ یہ سمجھے کہ مسلمان ہے اور ان کو نماز کی امامت کے لیے مصلے پر کھڑا کردیااور پنڈت جی نے بھی اپنی قرأت سے یہ محسوس نہ ہونے دیا کہ جناب غیر مسلم ہیں،اور آج وہی بھارت نماز پڑھنے کی مخالفت کررہا ہے،ہر جمعہ کو گڑ گائوں کے ہزاروں مسلمان نماز کے لیے پریشان رہتے ہیں۔کبھی اسی بھارت کے تمام سرکاری دفاتر سیکولرزم کی تصویر پیش کرتے تھے آج ہر سرکاری دفتر مندر بن گیا ہے۔ابھی ایک زمین کی رجسٹری کے لیے مہرولی کے رجسٹرار ہائوس جانا ہوا تو دیکھا کہ دفتروں میں لکشمی دیوی کی تصویریں ہیں ،اسی طرح پولس ہیڈکوارٹر میں ایک SHOکے آفس میں شری رام آویزاں ہیں۔میں تمام مذاہب کا احترام کرتا ہوں،اس لیے کہ میرا مذہب مجھے اسی کی تعلیم دیتا ہے ،لیکن میں سرکاری دفاتر میں مذہبی تصاویرکو اس لیے ناپسند کرتا ہوں کہ اس سے دوسرے مذاہب کے ماننے والے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔اگر آپ کو تصویریں لگانا ہی ہیں تو تمام مذاہب کی لگائیے ورنہ بھارت کے ان مجاہدین آزادی کی لگائیے جنھوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔
بھارت میں جس طرح جمہوریت اور سیکولرزم دم توڑ رہے ہیں ،اس سے خطرہ ہے کہ یہاں ایک ایسا نظام حکومت آجائے گا جس میں مذہبی اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں رہے گی۔نہ انھیں ملکیت کا حق ہوگا اور نہ انھیں ووٹ دینے کا اختیار ہوگا ،مذہبی شدت پسندی کو جس طرح ہوا دی جارہی ہے،اس سے یہاں نفرت کے شعلے بھڑک اٹھیں گے،ملک کے حکمرانوں کی زبانیں جو کچھ بول رہی ہیں وہ اس ملک کے مستقبل کے لیے اچھا نہیں ہے ،خود کو سیکولرزم کا علم بردار سمجھنے والی پارٹیاں ہندتو کے آگے جس طرح گھٹنے ٹیک رہی ہیں ،وہ ملک کے لیے کوئی نیک فال نہیں ہے ۔اس سے صرف مذہبی اقلیتوں کو ہی نہیں خود ہندئوں میں بھی دلتوں اور شودروں کو پریشانی ہوگی ،اس لیے کہ منو کے نظام میں ان کے کوئی حقوق نہیں ہیں۔
ان حالات میں کیا لائحۂ عمل ہو،یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔سوچنے کا یہ کام ویسے تو ملت کے صاحب بصیرت لوگوں کا ہے ۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس ضمن میںہمیں اپنی مذہبی لیڈر شپ کی شکایت اور شکوے کے بجائے ،اپنی سیاسی لیڈر شپ سے سوال کرنے چاہئے۔وہ لوگ جو مسلمانوں کے ووٹوں سے ایوان میں پہنچے ہیں انھوں نے ہمارے لیے کیا کام کیا؟آج بھی 22ممبران پارلیمنٹ ہیں،تقریباً 160ممبران اسمبلی مختلف ریاستوں میں ہیں،جن میں کیرالہ میں 32،آسام میں 31،اترپردیش میں 25،بہار میں 19،مہاراشٹر میں 10،راجستھامیں8،تلنگانہ میں 8،کرناٹک میں 7اور دہلی میں 5ایم ایل اے ہیں۔کشمیر کو چھوڑ کر بقیہ ریاستوں میں ایک ایک دو دو ہی مسلم نمائندے ہیں۔اگر ہم لوکل باڈیز کی بات کریں تو کئی درجن شہروں اور ہزاروں گائوں میں مسلمان اقتدار میں ہیں ۔یہ تو وہ تعداد ہے جو موجودہ وقت میں صاحب اختیار و اقتدار ہے ،اس سے کہیں زیادہ وہ مسلم لیڈر شپ ہے جو الیکشن میں ہارنے کے بعد گھر بیٹھ گئی ہے۔اگر یہ سارے مسلمان لیڈر اپنا اپنا رول ادا کرنے لگیں تو کیا کچھ نہیں کرسکتے ،جو لوگ علماء دین سے ایک ہونے کی بات کرتے ہیں وہ اپنی سیاسی لیڈر شپ سے ایک ہونے کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟آخر ہماری دنیا کی کامیابی تو اسی سیاسی لیڈر شپ کے ہاتھ میں ہے۔
آپ گزشتہ کئی سال کی پارلیمنٹ اور اسمبلی کی کارروائی اٹھا کر دیکھ لیجیے ،آپ کو پارلیمنٹ میں صرف ایک ہی شخص کی آواز سنائی دے گی ۔ جس کی آواز میں جمہوریت اور سیکولرزم کا درد سنائی دے گا،جو مسلمانوں کے طلاق بل پر احتجاج کرے گا اور کشمیر سے 370ہٹائے جانے پر بھی اور سی اے اے پر بھی زبان کھولے گا۔اس سے پہلے یا تو ان کے والد بولتے تھے یا پھر کبھی کبھی مسلم لیگ کے دو لوگوں کی زبان کھلتی تھی ،یہ بھی اس وقت ہوتا تھا جب ان کی ریاست میں کانگریس سے سمجھوتا نہیں ہوتا تھا۔ورنہ باقی مسلم قیادت خاموش تماشائی تھی ،جب کہ ایسا نہیں کہ وہ بولنا نہیں جانتے تھے ،ان میں وکیل بھی تھے اور علماء دین بھی ۔اس کا مطلب ہے کہ مسلمان سیاسی لیڈر شپ یا تو کام کرنے کا طریقہ نہیں جانتی ،یا اس کے سینے میں ملت کے لیے دھڑکتا ہوا دل نہیں ہے،یا وہ یہ سمجھتی ہے کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا سارا ذمہ مذہبی لیڈر شپ کے حصے میں ہے ،یا ان کے گردنوں میں اپنی سیاسی پارٹیوں کی غلامی کا طوق ہے،جو انھیں بولنے سے روکتا ہے۔اس کا حل اس کے سوا اور کیا ہے کہ مسلمان اپنی آزاد سیاسی جماعت کو استحکام عطا کریں تا کہ ان کے مسائل حل ہوسکیں اگر سوئے اتفاق کوئی مسئلہ حل نہ بھی ہوسکے توکم سے کم ایوانوں میں گونج تو سکے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)