80 کی دہائی میں رام مندر تحریک کے دوران ایک نعرہ بڑی طاقت سے لگایا گیا تھا۔ نعرہ تھا کہ ایودھیا صرف ایک جھانکی ہے، کاشی-متھرا باقی ہے۔ پھر سپریم کورٹ نے مداخلت کی۔ ایودھیا میں ایک مندر بنایا گیا۔ کاشی اور متھرا کے کیس مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں، لیکن اس دوران سنبھل میں جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر ایک بار پھر ایسا لگتا ہے کہ ایودھیا ہی نہیں، کاشی اور متھرا بھی جھانکی تھے۔ سنبھل کے علاوہ اب بھی بہت سی مساجد باقی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب 1991 میں ہی پلیس آف ورشپ ایکٹ نے ایسے کسی بھی مذہبی مقام کے بارے میں فیصلہ کیا تھا کہ اب کوئی تنازعہ نہیں ہوگا اور 15 اگست 1947 سے پہلے بنی ہوئی مساجد ، یاکسی بھی مذہبی مقام کی شکل میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، وہ سنبھل ہو یا کاشی اور متھرا، ان کی مساجد کے حوالے سے اتنے سارے سروے کے آرڈر کہاں سے آئے اور ان کی گنتی کہاں ختم ہوگی؟
1991 میں جب رام مندر تحریک اپنے عروج پر تھی، اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے ہندوستان کی پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کیا۔ اس قانون کو عبادت گاہوں کا ایکٹ، 1991 کہا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت دو بڑی چیزیں ہیں۔ سب سے پہلے، 15 اگست 1947 سے پہلے بنائے گئے کسی بھی مذہبی مقام کی شکل، چاہے وہ مندر ہو یا مسجد، تبدیل نہیں کی جائے گی۔ یعنی اگر مندر ہے تو مندر ہی رہے گا، مسجد ہے تو مسجد ہی رہے گی اور معاملہ کچھ بھی ہو چرچ، گرودوارہ وہی رہے گا۔ دوسری سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اگر کسی کے پاس اس بات کا ثبوت ہو کہ مسجد کی جگہ پر پہلے کوئی مندر یا کوئی اور مذہبی مقام موجود تھا تو اس ثبوت کو بھی نہیں مانا جائے گا اور مذہبی مقام کی حیثیت جوں کی توں رکھی جائے گی۔ . یہ قانون پورے ملک میں لاگو ہے لیکن اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ 10 سال سے زیادہ عرصے سے اٹھ رہا ہے۔ ایسے میں اس قانون کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سب سے پہلے کاشی میں گیانواپی کو لے کر عرضی دائر کی گئی جو عدالت میں ہے۔ پھر متھرا کا معاملہ بھی عدالت میں گیا اور اب سنبھل کو لے کر تنازعہ ہے۔ ایسے میں کیا یہ تنازع صرف سنبھل تک ہی رکے گا یا کئی اور مساجد اس کی زد میں آئیں گی؟ اس سوال کا جواب وکیل اشونی اپادھیائے کے بیان میں ملتا ہے، جنہوں نے عبادت گاہ ایکٹ پر عدالت میں سوالات اٹھائے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس ملک میں کم از کم 900 ایسی مساجد ہیں، جو مندروں کو گرا کر بنائی گئی ہیں۔ . یہ تمام مساجد 1192 سے 1947 کے درمیان تعمیر کی گئیں۔ اس عرضی کے دوران اشونی اپادھیائے نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ان 900 مندروں میں سے 100 مندروں کا ذکر مہاپوران میں بھی ملتا ہے، جنہیں گرا کر مسجدوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
ایودھیا، پھر کاشی، پھر متھرا اور اب سنبھل کے بعد اب بھی 900 سے زیادہ مساجد پر دعوے کیے جا سکتے ہیں۔ سنبھل کا ردعمل جس طرح سے نظر آرہا ہے، اس سے شبہ ہے کہ وہ دعوے بھی جلد ہی کیے جائیں گے، لیکن ایک سوال کا جواب ابھی باقی ہے کہ جب عبادت گاہوں کا قانون پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون ہے ۔ اگست 1947 سے پہلے مذہبی مقامات پر جمود برقرار ہے، پھر ضلعی عدالتیں ان مقدمات کی سماعت کیسے کریں گی۔ اس کا جواب سپریم کورٹ کے لیے ہے کہ وہ ضلعی عدالتوں کو ایسے حکم دینے سے روکے اور بتائے کہ عبادت گاہوں کا قانون کسی بھی عدالت کو اس طرح کے سروے کا حکم دینے سے روکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے ابھی تک یہ نہیں بتایا ہے۔ ستمبر 2022 میں جب جسٹس یو یو للت ملک کے چیف جسٹس تھے، یہ معاملہ بھی ان کی بنچ کے سامنے آیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اس معاملے پر مرکزی حکومت سے دو ہفتے کے اندر جواب طلب کیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت اس معاملے پر حلف نامہ داخل کرے۔ اس کے بعد صرف دو ہفتے نہیں بلکہ دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ابھی تک مرکزی حکومت نے اپنی طرف سے کوئی حلف نامہ داخل نہیں کیا ہے۔ ایسے میں اس طرح کے مسائل ضلعی عدالتوں تک پہنچ رہے ہیں اور ضلعی عدالتیں مقدمات کی سماعت کر رہی ہیں، کیونکہ ان کے پاس سپریم کورٹ کی طرف سے بھی ایک ہدایت ہے جو مئی 2022 کے لیے ہے۔ تب جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ اگرچہ 1991 کے پلیس آف ورشپ ایکٹ کے تحت کسی مذہبی مقام کی نوعیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ واقعی مذہبی جگہ ہے اور عبادت گاہوں کے قانون کے تحت تلاش کرنے پر کوئی پابندی نہیں.
یعنی اس پورے تنازع کے پیچھے سپریم کورٹ کا مئی 2022 کا حکم ہے جو جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے دیا تھا۔ اب اگر ہم عبادت گاہوں کے قانون اور سپریم کورٹ کے حکم کو ایک ساتھ رکھیں تو آسان زبان میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ چاہے عدالت ہو، سروے ٹیم ہو یا اے ایس آئی، اس کاشی سے سنبھل تک کی مسجدوں کی اصل ہئیت کے بارے میں جو چاہیں بتائیں لیکن قانون کی رو سےوہ رہیں گی مسجد ہی کوئی نہیں جانتا یہ ہنگامہ کہاں رکے گا کیونکہ نظر تو 900مسجدوں پر ہے