تحریر:شنکر ارنمیش
دوپہر کا ایک بج رہا ہے اور نور محل کے احاطے میں کافی ہلچل ہے۔ نور محل کے وارث کاظم علی خان کے 30 سالہ بیٹے حیدر علی خان کا انتخابی دفتر ہے۔ حیدرعلی، رام پور کے آخری نواب سید رضا خان کے ناتی ہیں۔
اترپردیش کے آئندہ انتخابات میں رام پور کے پرانے نواب خاندان اور وہیں کے دوسرے نواب یعنی طاقتور اعظم خاں ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔ کاظم علی جنہیں نوید میاں کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، اس بار اعظم خاں کے اسمبلی حلقے سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے بیٹے حیدرعلی جو حمزہ میاں کے نام سے مشہور ہیں، سوار کی نشست سے اعظم کے بیٹے عبداللہ کے خلاف میدان میں ہیں۔
اعظم خاں رام پور کے موجودہ ایم پی ہیں اور اپنے مخالفین کے لیے مضبوط امیدوار مانے جاتے ہیں۔ انہیں اتر پردیش کی سیاست میں ایک بڑا لیڈر مانا جاتا ہے، وہ رام پور سے 9 بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں اور سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے بانی ملائم سنگھ یادو کے قریبی مانے جاتے ہیں۔ وہ 2012-2017 میں ایس پی حکومت کے دوران سب سے طاقتور وزیر کے طور پر جانے جاتے تھے، لیکن اعظم خاں اس وقت 80 سے زائد معاملوںمیں جیل میں بند ہیں اور ان پر زمینوں پر قبضہ کرنے سے لے کر بکری چوری تک کے الزامات کا سامنا ہے۔
نوید میاں 2002 سے اب تک پانچ بار سوار سیٹ سے ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ بی جے پی کو چھوڑ کر وہ ہر پارٹیوں سے – بی ایس پی ، ایس پی اور کانگریس سے الیکشن لڑ چکے ہیں ۔ سال 2012 میں انہوں نے کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا، جبکہ 2017 میں وہ بی ایس پی کے امیدوار تھے۔ اس بار وہ کانگریس سے انتخابلڑ رہے ہیں، جب کہ حمزہ میاںبی جے پی کی اتحادی پارٹی اپنا دل سے انتخابی میدان میں اس امید سے ہیں کہ شاید کچھ ہندو ووٹ مل جائیں ۔
رام پور اور سوار دونوں جگہ بڑی انتخابی گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے۔ یہاں 14 فروری کو الیکشن ہونے ہیں اور علاقے کے لوگ دم بھر کر انتظار کر رہے ہیں۔
دو انتخابی مہموں کی کہانی
نور محل میں سبھی نوید میاں کا انتظار کر رہے ہیں، جنہیں انتخابی مہم کے لیے قریبی ڈگری میں کالج جانا ہے، لیکن پہلے اسے اپنے قانونی مشیر مظہر میاں سے معمولی قانونی معاملے پر مشورہ کرنا ہوگا۔
مظہر میاں کے آتے ہی نوید میاں نے ان سے پوچھا ’کیا آپ نے سرکل آفیسر کے دفتر میں اپنا احتجاج درج کرادیا ہے‘۔ نوید میاں کا کہنا ہے کہ ‘تمام دستاویزات افسر کے حوالے کر دیے گئے ہیں تاکہ عبداللہ کی نامزدگی کو منسوخ کیا جا سکے۔ اگر وہ الیکشن جیت بھی گیا تو ہم اسے پچھلی بار کی طرح عدالت میں چیلنج کریں گے۔
آخری بار2017 میں نوید میاں سووار میں عبداللہ سے الیکشن ہار گئے تھے، لیکن قانونی جنگ میں انہیں شکست ہوئی تھی۔ عبداللہ کی اسمبلی کی رکنیت عدالت نے 2019 میں ان کی نامزدگی میں جعلی دستاویزات استعمال کرنے پر منسوخ کر دی تھی، یہ مقدمہ نوید میاں نے دائر کیا تھا۔ عبداللہ کو جعلسازی کے جرم میں دو سال جیل میں گزارنا پڑے۔ وہ ابھی جنوری کے مہینے میں جیل سے باہر آئے ہیں۔
نوید میاں نے ڈگری کالج زندہ باد کے نعروں کے درمیان تقریر شروع کی۔ اعظم خاں کے خاندان پر نوابی انداز میں حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہماری لڑائی ان لوگوں سے ہے جنہوں نے غریبوں کی زمینیں ہڑپتے ہوئے محل اوریونیورسٹی بنائی اور آج دہشت گردی کے مترادف بن چکے ہیں ، لیکن ہمیں مذہبی آہنگی کو برقرار رکھنا ہےاور کسی کے اثر ورسوخ کا شکار نہیں ہونا ہے۔
تقریباً 10-15 منٹ کی تقریر ختم کرنے کے بعد وہ لوگوں سے ملنے پروگرام میں جاتے ہیں۔ ہجوم شائستگی سے اس کا استقبال کرتا ہے اور نعرے لگائے بغیر چلا جاتا ہے۔
نور محل سے تھوڑے ہی فاصلے پر توپ خانہ گیٹ ہے جہاں ایس پی کا دفتر واقع ہے۔ یہاں 200-300 آدمی جمع ہیں۔ عبداللہ اعظم اپنے والد کی غیر موجودگی میں ایک اسٹار مقرر ہیں اور کچھ علاقوں میں ڈور ٹوڈور مہم چلا رہے ہیں۔ شام کو وہ ایک چھوٹے سے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہیں۔ یہاں اعظم خاں کے حق میں نعرے لگائے جارہے ہیں اور ماحول کافی گرم ہے۔
جیسے ہی عبداللہ نے مائیک ہاتھ میں لیا، عبداللہ نے موجود مجمع سے کہا کہ ’یہ لڑائی عام لوگوں اور نواب کے درمیان ہے۔‘ وہ لوگوں کو اتر پردیش میں یوگی حکومت کی طرف سے کی گئی زیادتیوں کے بارے میں بھی بتاتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ کس طرح ان کے خاندان کے خلاف انتقامی کارروائی کی گئی ہے۔
نوید میاں کی سڑک کنارے ہونے والی اس سے پہلے کی میٹنگوں کے برعکس عبداللہ کی میٹنگ میں کافی بھیڑ ہے اور جس طرح سے نعرے لگائے جا رہے ہیں اس سے صاف ہے کہ رام پور کے مسلم ووٹر کی اعظم خاں کے بارے میں واضح رائے ہے۔
تاریخی دشمنی
نوابی خاندان اور اعظم خاں کے درمیان کئی دہائیوں سے دشمنی چلی آ رہی ہے۔ نواب علی محمد خاں نے ریاست رامپور قائم کی اور سید رضا خاں اس جگہ کے آخری نواب تھے۔ 1949 میں انہوں نے اپنی ریاست کو جمہوریہ ہند میں ضم کر دیا۔ 1966 میں ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے ذوالفقار علی یا مکی میاں نوابی خاندان کے وارث بنے۔
مکی میاں نےکانگریس کے ٹکٹ پر 1967، 1971، 1980، 1984 اور 1989 کے انتخابات مسلسل جیتے تھے۔ ان کی موت کے بعد ان کی بیوہ نوربانو نے 1996 اور 1999 میں یہاں سے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھیں۔
نفیس صدیقی نے روہیل کھنڈ کے نوابوں پر کئی کتابیں لکھی ہیں، رام پور بھی اسی علاقے میں آتا ہے۔ نفیس کا کہنا ہے کہ ‘اعظم خاں کے والد ممتاز خاں ایک اچھے آدمی تھے، جو اپنی سائیکل پر ٹائپ مشین لے کر چلتے تھے۔ اعظم کثیر المقاصد سوچ رکھتے تھے اور سیاست میں اپنی جگہ بنانا چاہتے تھے، جس کی وجہ سے انہوں نے نوابی خاندان کو چیلنج کرنا ضروری سمجھا۔ چنانچہ انہوںنے اس چیلنج کو عوام بمقابلہ نواب کی جنگ کا رنگ دے دیا۔’’’
صدیقی کا مزید کہنا ہے کہ ’1979 اور 1980 کی دہائیوں میں رام پور کی سیاست مکمل طور پر نور محل کے کنٹرول میں تھی۔ ایمرجنسی کے بعد اعظم نے جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا لیکن وہ کانگریس کے شانو میاں سے الیکشن ہار گئے۔ اس کے بعد انہوں نے بیڑی بنانے والوں اور کپڑوں کے مزدوروں کے مفادات کے لیے لڑائی لڑنی شروع کی۔ ٹیکسٹائل مل، رضا ٹیکسٹائل کی شروعات نواب رضا علی خاں نےکی تھی اور اعظم نے یہاں آگ بھڑکانا شروع کر دی تھی۔
سال1980 میں اعظم خاں یوپی قانون ساز اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے اور مکی میاں لوک سبھا کے انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت مکی میاں کی حمایت سے الیکشن جیتنے والے اعظم خاں، بعد میں اگلی دہائی تک شاہی خاندان کے خلاف حریف کے کردار میں آگئے۔
بابری مسجد کے منہدم ہونے اور میرٹھ میں ہوئے فسادات کے بعد، اعظم خاں نے اپنی تصویر مزدور لیڈر سے بدل کر ایک مسلم لیڈر کی بنا لی اور ملائم کی کابینہ میں وزیر بننے کے بعد رام پور کے نئے نواب بن گئے۔
رضا لائبریری میں کام کرنے والے طارق رضا کا کہنا ہے کہ ‘شاہی خاندان نے یہاں 18 فیکٹریاں بنائی تھیں اور کانپور کے بعد رام پور سب سے بڑا کاروباری مرکز تھا۔ مکی میاں نے یہاں سرکاری پریس قائم کیا۔ اعظم خاں جب شہری امور کے وزیر بنے تو انہوں نے سڑکوں اور بجلی کی مرمت کروائی۔
کاؤنٹر اٹیک
نوید میاں کا کہنا ہے کہ ’وزیر بننے کے بعد اعظم خاں نے رام پور سے شاہی خاندان کی تاریخ کو مٹانے کی پوری کوشش کی – چوراہوں پرتختیاں( نیمپلیٹ) ہٹانے سے لے کر شہر کےدروازوں تک ہٹانے میں کوئی کثر نہیں رکھی۔ ‘ اعظم خاں کوووٹ دے کر عوام کو کیا ملے گا؟
نوید میاں پوچھتے ہیں کہ ‘رام پور کے لیے 2012 سے 2017 کے درمیان بدترین وقت تھا جب اعظم خاں وزیر اعلیٰ کی طرح برتاؤ کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنا رام پور بنانا شروع کردیا۔ غریبوں کی زمینیں ہڑپ لی گئیں لیکن اب وہ جیل میں ہیں۔ جب انسان اپنی حفاظت نہیں کر سکتا تو عام لوگوں کی حفاظت کیسے کر سکتا ہے؟
ان کے بیٹے حمزہ میاں کا کہنا ہے کہ ’ہمارے خاندان کے لوگوں نے 35 اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنائیں، جنہیں حکومت چلا رہی ہے۔ اعظم خاں نے صرف ایک یونیورسٹی (محمد علی جوہر) بنائی اور تمام خاص جگہوں کو اپنے خاندان کے افراد سے بھر دیا۔ انہوں نے 500 کروڑ کی لاگت سے ایک پل بنایا تھا، جس پر آج بے روزگار نوجوان ٹک ٹاک ویڈیو بنا رہے ہیں۔ وہ کس قسم کی ترقی کی بات کر رہے ہیں؟‘
لیکن عبداللہ ہر الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’نوابوں نے 1857 کی بغاوت میں برطانوی عوام کا ساتھ دیا تھا۔‘ یہاں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ہی لوگوں کو 1857 کی بغاوت میں مروادیا تھا۔ انہیں ملکہ وکٹوریہ نے عہدہ دیا تھا۔ یہاں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے لیے سڑکیں مخصوص کر رکھی تھیں۔ انہیں عام لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ عام لوگوں سے مصافحہ کرنے کے بعد وہ اپنے ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ وہ آرام دہ زندگی گزارنے والے لوگ ہیں اور انہیں عام لوگوں کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ عبداللہ نہ صرف بی جے پی کے نشانے پر ہیں بلکہ بی جے پی کے ہر لیڈر اپنی جلسوں میں بھی انہیں نشانہ بناتے ہیں۔
چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کے اس بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ یوپی انتخابات ’80 فیصد بمقابلہ 20 فیصد‘ ہیں، عبداللہ کہتے ہیں، ‘یہ لڑائی 100 فیصد بمقابلہ حکومت ہے۔ ہم نفرت سے کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ کووڈ نے غریب اور امیر یا ہندو اور مسلم میں کوئی امتیاز نہیں کیا تھا۔
عبداللہ نے اپنے والد پر لگائے گئے الزامات کو بھی خارج کرتے ہیں۔ ’اعظم خاں کو شدید اذیتیں دی گئیں۔ ہمیں بہت چھوٹے پیمانے کا شکار بنایا گیا ہے۔ ہمارے خلاف بھینسیں اور بکریاں چرانے کے مقدمات چل رہے ہیں۔ انہیں کچھ مضبوط مقدمات درج کروانے چاہیے تھے۔‘
اعظم خان کو جیل بھیجنے کے پیچھے سابق بی جے پی وزیر کے بیٹے آکاش سکسینہ کا ہاتھ ہے، جس نے اتر پردیش میں جب بی جے پی کی حکومت بنی تھی تو ایس پی لیڈر کے خلاف سب سے زیادہ فرضی مقدمات درج کروائے تھے۔ ’ہم نے کوئی فرضی مقدمہ درج نہیں کئے تھے۔ انہوں نے تمام جرائم کیے ہیں۔ یہ سچ اور جھوٹ کی جنگ ہے اور جیت ہماری ہو گی۔‘
آکاش سکسینہ رام پور سے بی جے پی کے ٹکٹ پر لڑ رہے ہیں
لیکن، عبداللہ اعظم اس کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ انتخاب اس بات کو کو لے کرمیں نہیں ہے کہ اعظم خاں چور ہیں یا نہیں، بلکہ یہ اس بات کو لے کرہے کہ آپ نے اجولا یوجنا کا دوسرا سلنڈر کیوں نہیں بھرویا اور 2014 میں آپ نے جو کروڑوں نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا وہ کہاں پیدا کئے گئے۔ بی جے پی کے پاس کچھ دکھانے کے لئے نہیں ہے۔ بہکانے کی ترکیب اب لمبے وقت تک نہیں کام میں آنےوالی ہے۔ کسان جاننا چاہتے ہیں کہ ان کی آمدنی کہاں دوگنی ہوئی۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ مہنگائی کیوں بڑھی، دہلی کی سرحد پر 700 کسان کیسے مر گئے، لکھیم میں کیا ہوا اور آکسیجن کی قلت کیسے ہوئی۔‘
رام پور کے عظیم خاں کا ماننا ہے کہ لفظوں کی جنگ میں اعظم خاں کو فائدہ ہوگا۔ اعظم خاں کے بارے میں لوگوں میں یہ ہمدردی ہے کہ انہیں بلاوجہ پریشان کیا جا رہا ہے۔ راجہ صاحب بھی اچھے آدمی ہیں لیکن وہ یہاں زیادہ نہیں رکتے۔ کم از کم ہماری شکایات اعظم خاں کے یہاں سنی جاتی ہیں۔ فی الحال اس لڑائی میں بی جے پی بھی شامل ہے اور اصل لڑائی بی جے پی اور ایس پی کے درمیان ہے۔
(بشکریہ : دی پرنٹ)