نئی دہلی:(آرکے بیورو)
یوپی کے انسداد تبدیلی مذہب قانون کے تحت محمد عمر گوتم اور مفتی قاضی جہانگیر عالم قاسمی کی گرفتاری کو پانچ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اب تک ان کی ضمانت کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ تاہم، ان کے وکیل نے اس عمل کو ’اسٹریٹجک قدم‘ قرار دیتے ہوئے اس کا جواز پیش کیا جس سے عمر گوتم کی بیٹی کے خدشات کو تقویت ملتی ہے جس نے پہلے بھی مسلم تنظیموں کے ’سرد ردعمل‘پر سوالات اٹھائے تھے۔
جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے مقدمہ لڑنےوالے وکلاء، جو انہیں قانونی مدد فراہم کر رہی ہے، نے ضمانت کی درخواست منتقل نہ کرنے کے فیصلے کو درست قرار دیا۔ ایڈووکیٹ ایم آر شمشاد نے دلیل دی، ’’یہ قانونی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ اس کی وجوہات کو عوامی طور پر ظاہر کرنا مناسب نہیں ہے۔‘‘
فاطمہ تقدیس گوتم نے حال ہی میں مسلم تنظیموں کی جانب سے مطلوبہ تعاون کی کمی پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’کسی نے ہماری پرواہ نہیں کی… اب ہم اکیلے رہ گئے ہیں۔‘‘
’ہمارا زیادہ تر وقت قانونی گڑبڑ پر بحث کرنے، وکلاء کی پیروی کرنے وغیرہ میں ضائع ہوتا ہے۔ کوئی ادارہ یا فرد ہمارے حق میں نہیں بولتا،‘ گرچہ یہ باتیں سامنے آنے کے بعد جمعیۃ علماء ہند (مولانا محمود مدنی )کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی عمر گوتم کے گھر جاکر فاطمہ تقدیس سے ملاقات کرکے ان کے خدشات کو دورکرنے کی کوشش کے ساتھ ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
واضح رہے کہ21 جون کو، عمر گوتم اور قاضی جہانگیر کو اتر پردیش پولیس کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے دہلی کے جامعہ نگر سے ’شادی، نوکری ، پیسے کی پیشکش اور ترغیب ولالچ کے ذریعے لوگوں کو بڑے پیمانے پر اسلام قبول کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
فتح پور ضلع کے راجپوت خاندان میں پیدا ہونے والے شیام پرتاپ سنگھ گوتم نے 1984 میں اسلام قبول کیا تھا۔ بعد میں ان کی اہلیہ نے بھی اسلام قبول کیا۔ اپنے روم میٹ ناصر کاہن، جو اس وقت گووند بلبھ پنت یونیورسٹی سے بی ایس سی کر رہے تھے، کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر، گوتم نے اسلام قبول کیا تھا۔
اے آئی ایل سی کے سکریٹری جنرل ایڈووکیٹ شرف الدین احمد نے کہا کہ شہری آزادی کو بلاشبہ ایک بڑی عدالتی تشویش کا معاملہ سمجھا جاتا ہے اور انہوں نے مہینوں بعد لکھنؤ کی سیشن کورٹ میں عمر گوتم کی جانب سے ضمانت کی درخواست بھی پیش نہ کرنے پر حیرت کا اظہار کیا۔