’’نوٹ:اسد الدین اویسی نے حالیہ انٹرویو میں سیکولر لیڈرشپ کے رویہ پر پھرانگلی اٹھائی ہے اور اپنی قیادت تیار کرنے پرزور دیا ہے، جبکہ ایک طبقہ آئڈنٹیٹی پالیٹکس کو مہلک سمجھتاہے۔ ’دی کوئنٹ‘ کو دیے انٹرویو میں اور بھی بہت کچھ کہا ہے ،ایک نقطۂ نظر کے طور پر کوئنٹ کے شکریہ کے ساتھ قارئین کے استفادہ کے لیے پیش کیا جارہاہے۔‘
آنے والے دنوں میں اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔اے آئی ایم آئی ایم کےسربراہ اسد الدین اویسی یوپی میں ایک ایسے امیدوار ہیں، جو ہمیشہ کی طرح ایک دلچسپ کھلاڑی بن کر ابھرے ہیں۔ دی کوئنٹ سے بات کرتے ہوئے اویسی نے یتی نرسنگھانند پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جج صاحب کو سمجھنا چاہیے کہ جب دھرم سنسدہوتی ہے تو ملک کے آئین کو ختم کرنے اور اقلیتی سماج کے لوگوں کو مارنے اور مجھے جان سے مارنے کی بات کی جاتی ہے۔
’’یہ بہت افسوسناک ہے، جو لوگ اقتدار میں ہیں، وہ یوپی ہو یا دہلی، ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بالکل خاموش ہو کر تماشائی بنےبیٹھے ہیں۔ نرسنگھانند جیسے لوگ ایسی باتیں صرف بی جے پی کی حمایت کی وجہ سے کرتے ہیں۔‘‘
پرانی نسل کے مسلمانوں کے لیے آپ ابھی اجنبی ہیں اور آپ کو بی جے پی کی بی ٹیم کہتے ہیں۔ ان کو کیسے اپنے ساتھ لیں گے؟
جو لوگ میری مخالفت کرتے ہیں، یہ ان کا حق ہے، لیکن میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں بتائیں کہ اگر ہم نے 2019 میں یوپی میں لوک سبھا کا الیکشن نہیں لڑا تو بی جے پی کیسے جیتی… میری وجہ سے توبی جے پی نہیں جیت رہی ہے نا۔اکھلیش تو 2017 کا الیکشن بھی ہار چکے ہیں۔ بی جے پی اس لئے جیت رہی ہے کیونکہ بی جے پی کو اکثریتی برادری کی حمایت حاصل ہے۔
مسلمانوں کو ہمیشہ ہراساں کیا گیا، سی اے اے میں مارا گیا… میں مسلمانوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کا لیڈر کون ہے، آپ کے لیے کون لڑے گا؟
ایس پی، بی ایس پی، کانگریس، آر ایل ڈی سبھی پارٹیوں کو مسلمانوں نے ووٹ دیا ہے، اس طرف سے بھی مسلمانوں کو ٹکٹ دیا جا رہا ہے؟
جب مظفر نگر کا فساد ہوا تو تقریباً 50 ہزار لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔ میں کہہ رہا ہوں کہ 2013 میں یوپی اسمبلی میں 69 مسلم ایم ایل اے تھے، ان کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں، انہوں نے مظفر نگر کے لیے آواز نہیں اٹھائی تھی۔ جس پارٹی سے وہ جیتے وہ مسلم سماج کی لیڈر نہیں ہوتے۔
ہماری لڑائی یہ ہے کہ جب ایک سماج کی سیاسی لیڈر شپ ہوگی، لیڈر ہوگا، تب ہی اس کے مسائل حل ہوتے ہیں۔
اکھلیش یادو نے کئی مسلم لیڈروں کا ٹکٹ کیوں کاٹا، اکھلیش یادو نے دھرم سنسد پر کوئی بیان کیوں نہیں دیا؟آپ بولنا ہی نہیں چاہتے ،مسلمان کے بجائے اقلیتی سماج بھی نہیں بولنا چاہتے۔
آپ نے بابو کشواہا کو وزیر اعلیٰ کا درجہ دیا، آپ نے کسی مسلمان کا انتخاب کیوں نہیں کیا؟
ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر اتر پردیش کے عوام ہمیں موقع دیتے ہیں تو بابو سنگھ کشواہا صاحب ڈھائی سال کے لیے پہلے وزیر اعلیٰ ہوں گے اور دوسرے ڈھائی سال کے لیے دلت سماج سے وزیر اعلیٰ ہوں گے…اور پانچ سال میں تین نائب وزیر اعلیٰ جو دو پسماندہ سماج کےہوں گے اور ایک مسلمان رہے گا۔
ہم شروع سے کہتے رہے ہیں کہ یہ سیاسی جماعتیں کیوں ڈپٹی سی ایم کے چہرے کا فیصلہ نہیں کرتیں؟ یہ مزدوری بھی کراتی ہے اور مزدوری بھی نہیں دیتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر ایک کو ہر چیز میں حصہ ملے۔
اے آئی ایم آئی ایم الائنس کے کھیل میں مضبوط کیوں نہیں ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ راج بھر خود بھاگ گئے، لیکن جو پارٹیاں تھیں وہ بابو سنگھ کشواہا صاحب کے ساتھ آگئی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ میں کسی پارٹی پر اپنے ساتھ آنے کے لیے دباؤ نہیں ڈال سکتا۔