تحریر: فاطمہ شیخ
احمد نورانی اور ندیم حسین کی کتاب ایجنٹس آف چینج میں دو ہزار سترہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تینتیس ہزار مدارس ہیں جن میں سے صرف تین فیصد مدارس حکومتی تعلیمی نظام کا حصہ ہیں۔ باقی مدارس کی انتظامیہ اور فنڈنگ نجی طور پر چلائی جاتی ہے۔
پاکستان میں وہ مدارس جن میں اعلیٰ درجے کی دینی تعلیم فراہم کی جاتی ہے ان میں کم ازکم آٹھویں یا دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد طلباء داخلےکے اہل ہوتے ہیں۔ ان مدارس میں سے ایک درس نظامی کے تحت تعلیم فراہم کر رہا ہے جہاں آٹھ سال کی تعلیم میں قرآن کی تفسیر، قرآن کو حفظ کرنا، اسلامی تاریخ اور فقہ پڑھایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ دوسرے مدارس میں کم سن بچوں کو قرآن حفظ کرنے کے ساتھ بنیادی دنیاوی تعلیم بھی فراہم کی جاتی ہے۔
مدارس کے تعلیمی نظام میں عام طور پر سوال اٹھانے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔
ایجنٹس آف چینج میں مدارس میں ہائیبریڈ تعلیمی نظام پر ماہر تعلیم اور ماہر طبیعات ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی رائے بیان کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دینی اور دنیاوی تعلیمی مواد میں ایک واضح فرق ہونا چاہئے۔
کتاب میں ڈاکٹر ہود بھائی کا کہنا ہے کہ مدارس میں طلباء روایتی استاد سے سوالات نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ وہ تنقیدی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ جبکہ جدید زمانے کے اساتذہ تحقیق اور سوالات کی حوصلہ افزائی کے ذریعے تعلیمی نظام کو چلاتے ہیں۔
عام طور پر مدارس میں دینی مضامین بنا سوال اٹھائے پڑھائے جاتے ہیں کیونکہ دینی تعلیم کے بارے میں سوال پوچھنا روایت کے خلاف اور غیر مناسب عمل سمجھا جاتا ہے۔ جب دینی علوم کی تعلیم کا نفاذ روز مرہ زندگی میں ہوتا ہے اور مختلف قسم کی صورتحال میں نئے مسائل اور ان سے جڑے ہوئے سوالات پیدا ہوتے ہیں تو عام طور پر انہیں یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ دینی لحاظ سے ایک ہی معیار ہے اور اس میں ردو بدل کی گنجائش نہیں ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ مدارس میں دنیاوی تعلیم کے مضامین مثلاً ادب، طبیعات، کیمسٹری وغیرہ بغیر کسی بحث و مباحثے اور تنقیدی سوالات کے بنا پڑھائے جاسکتے ہیں؟
یقیناً نہیں۔
ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دنیا میں تحقیق، بحث و مباحثہ اور تنقیدی صلاحیتوں کے بل بوتے پر مختلف مضامین میں جدت، نئی تحقیق کے راستے اور نئی فکری سوچ پیدا ہوتی ہے۔
اسی سوچ کو بروئے کار لا کر ریسرچ کی جاتی ہے اور پھر نئی تحقیق کی بنیاد پر اسے عملی زندگی میں نافذ کیا جاتا ہے۔
طلباء کے سوالات کی حوصلہ افزائی کرنے سے انہیں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا مزید موقع ملتا ہے جس کے ذریعے وہ پرانے مضامین میں نئی راہیں تلاش کرتے ہیں۔
جن تعلیمی نظام میں بچوں کے ذہنوں میں ابھرنے والے سوالات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو رد کیا جاتا ہے تو وہ رٹا لگاتے ہیں اور اس کے ذریعے شعور حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔
ایسا تعلیمی نظام کند ذہنیت کو فروغ دیتا ہے اور تعلیم صرف ڈگریاں لینے اور روزگار کمانے کی تگ و دو تک محدود ہوجاتی ہے۔
مدارس میں ہائیبریڈ تعلیمی نظام ایک اہم پیش رفت ہے۔ یقینا اس تبدیلی کے ذریعے طلباء کو اضافی صلاحیتوں سے لیس کیا جا سکتا ہے اور وہ دنیاوی مضامین کو پیشے کے طور پر اپنانے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس نظام کے نفاذ سے قبل مدارس میں بڑے پیمانے پر اساتذہ کی ٹریننگ ضروری ہے جس میں ان کی روایتی سوچ کو تبدیل کرکے جدت پسندی کی طرف راغب کیا جانا چاہیے۔
(بشکریہ: ڈی ڈبلیو)