افغان سرحد کے پاس ايک فوجی چيک پوسٹ پر پاکستانی طالبان کے حملے ميں سولہ فوجی ہلاک اور پانچ ديگر شديد زخمی ہو گئے ہيں۔ پاکستانی انٹيليجنس کے ايک افسر نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر واقعے کی تفصيلات شيئر کيں۔ جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات بارہ بجے کے بعد عسکريت پسندوں نے اس پہاڑی علاقے ميں تين اطراف سے دھاوا بول ديا۔ سکيورٹی حکام کے مطابق تيس جنگجوؤں کا گروپ حملے ميں ملوث تھا اور دو گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔ جنگجو مواصلاتی نظام، دستاويزات اور چيک پوسٹ پر موجود ديگر ساز و سامان کو جاتے وقت نذر آتش کر گئايک اور انٹيليجنس افسر نے بتايا کہ يہ حملہ صوبہ خيبر پختونخوا ميں افغان سرحد سے چاليس کلوميٹر کے فاصلے پر واقع مکين نامی علاقے ميں کيا گيا۔ پاکستان تحريک طالبان نے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ ‘ہمارے سینئر کمانڈروں کی شہادت کے بدلے میں‘ کیا گیا تھا۔ گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے فوجی ساز و سامان کا ایک ذخیرہ اپنے قبضے میں لے لیا ہے، جس میں مشین گنيں اور ایک نائٹ ویژن ڈیوائسز بھی شامل ہيں۔
پاکستانی فوج نے ابھی تک اس واقعے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ افغانستان میں طالبان کی 2021 میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے پاکستان کے مغربی سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی بڑھ گئی ہے۔اسلام آباد کا الزام ہے کہ کابل کے حکمران پاکستان پر حملے کرنے والے عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑنے میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستانی طالبان، جنہیں تحریک طالبان پاکستان (TTP) کہا جاتا ہے، افغان طالبان کے ساتھ مشترکہ نظریہ رکھتے ہیں۔ کابل کے نئے حکمرانوں نے افغان سرزمین سے غیر ملکی عسکریت پسند گروپوں کو نکالنے کا عہد کیا ہے۔ لیکن جولائی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے 6,500 جنگجو وہاں مقیم ہیں۔ کہا گیا ہے کہ ‘طالبان ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد گروپ تصور نہیں کرتے‘(۔ڈی ڈبلیو)