نئی دہلی:
بی جے پی کے قومی ترجمان سمبت پاترا کو پہلے تاریخ اور بھارت کا صحیح مطالعہ کرنا چاہیے، وہ ناقص معلومات اور افواہ کی بنیاد پر تبصرہ کرکے اکثریتی سماج کو گمراہ کرنے کا کام کرتے ہیں، وہ کون سا گاؤں ہے جہاں ہندؤں سے جزیہ لیا جاتا ہے، انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ جزیہ کا معنی و مطلب کیا ہے اور کون، کس سے لیتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا بابر نے جزیہ لیا تھا، اس نے اپنے بیٹے ہمایوں کو جو وصیت کی تھی اس کا مطالعہ کریں تو کئی طرح کے انکشافات ہوتے ہیں۔
سمبت پاترا جیسے لوگ شیوا جی اور مراٹھوں کے چوتھ وصول کرنے پر بحث کیوں نہیں کرتے ہیں،؟ اس کی مقدار تو جزیہ سے بہت زیادہ ہوتی ہے، ویسے سنگھ اور بی جے پی کے جھوٹ کا جواب بنگال کے ہندو مسلم رائے دہندگان نے اچھی طرح دے دیا ہے، محکوم تو ہندو مسلم دونوں رہے ہیں، معاملہ حکمراں اور رعایا کا ہے نہ کہ ہندو مسلم کا، ہندو کبھی بھی غلام نہیں رہے ہیں، اشتعال انگیزی کا کبھی بھی بہتر نتیجہ نہیں نکل سکتا ہے؟ اورنگزیب کے پچاس سال میں بھید بھاؤ کے اتنے معاملے نہیں ہوئے جتنے کہ اچھے دنوں کی حکومت کے سال، چھ مہینے میں ہو گئے ہیں۔ اورنگزیب نے چین سے کیلاش مان سروور آزاد کرا کر ہندؤں کو دیا تھا، لیکن پاترا اور ان کی سرکار نے کیا کیا اور کیا دیا ہے؟ مسٹر پاترا کو تاریخ کا مطالعہ صحیح طور سے کرنا چاہیے۔