تحریر: عبدالسلام عاصم
ناگالینڈ سانحہ اپنی نوعیت کا کوئی نیا واقعہ نہیں۔ اصل میں جب حکومتیں باغیانہ، انتہاپسندانہ، فرقہ وارانہ یا سماج کے ایک حلقے کی طرف سے مفسدانہ سرگرمیوں سے نمٹنے میں جانے انجانے میں خود خطرے میں گھر جاتی ہیں تو وہ ہر آہٹ کو خطرہ سمجھنے لگتی ہیں اور سخت جوابی کارروائی کر بیٹھتی ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک مختلف پیمانے پر اِن مسائل سے دوچار ہیں۔ ہر جگہ اِن مسائل کی شدتیں الگ نوعیت کی ہیں۔ نتیجے میں صرف نقصان ہاتھ آتا ہے۔ ناگالینڈ سانحہ باغیانہ سرگرمیوں سے پریشان حکومت اور حالات سے پریشان عوام دونوں کیلئے افسوسناک ہے۔
اصل میں مذاکرات کی میز سے دوری یا مسئلے کی جداگانہ تفہیم فریقین کو بُری طرح اُلجھا دیتی ہے۔ وہ کسی حل رُخی نتیجے پر پہنچنے کے بجائے یک دوسرے کے ارادوں اور عزائم کا اپنے اپنے طور پرتجزیہ کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اس طرح اخذ کردہ نتیجے کو حتمی مان کا اقدامات مرتب کرنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ حکومت چونکہ وسائل سے لیس ہوتی ہے۔ اس لئے وہ سخت پیش بندی سے کام لیتی ہے۔ دوسری طرف (الگ الگ نظروں میں) باغی، نالاں یا سرکش کی پہچان رکھنے والے تنگ آمد بہ جنگ آمد کی تمہید کے ساتھ سرگرمِ عمل ہوجاتے ہیں۔
اسی سال اگست میں افغانستان میں امریکہ کے ایک ڈرون حملے میں ایک امدادی کارکن سمیت اس کے خاندان کے نو ارکان ہلاک ہوگئے تھے۔ اُن میں سات بچے بھی شامل تھے۔ اِس حملے میں ایک کار کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اُس کار پر امریکی انٹیلی جنس نے آٹھ گھنٹوں تک نظر رکھی تھی اور اُس کا خیال تھا کہ وہ کار افغانستان میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ خراسانی گروپ کی تھی۔ یہ جان لیوا حملہ افغانستان میں امریکہ کی 20 سال تک جاری رہنے والی جنگ سے قبل آخری کارروائیوں میں سے ایک تھا۔ حقائق سامنے آنے پر امریکہ نے تسلیم کر لیا تھا کہ فوجی انخلا سے چند دن قبل کابل میں کئے جانے والے اس ڈرون حملے میں دس معصوم شہری ہلاک ہوئے تھے۔ امریکی ذمہ داروں نے اس حملے کو ایک افسوسناک غلطی قرار دیتے ہوئے تہہ دل سے معذرت طلب کی تھی۔ یہ واقعہ اور اس طرح کے دوسرے واقعات صرف معذرت، مذمت یا نکتہ چینی سے علاقہ نہیں رکھتے۔ شعوری ارتقاء کے سفر میں اس سے بچنے کی صورت پر بہ انداز دیگر بھی غور کرنا چاہئے۔ انسانی جانوں کے زیاں کے غیر طبیعی واقعات کا دائرہ محدود کرنے کی سائنسی کوششوں سے اِس رُخ پر بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ حکومت اور حکومت سے بہتری کی توقع رکھنے والے لوگ اپنے اپنے اخذ کردہ نتائج سے چپکے رہنے سے نجات حاصل کریں۔
ناگالینڈ میں باغیانہ سرگرمیوں کے انسداد کی ایک سے زیادہ کوششوں میں سے ایک کوشش فورس کو خصوصی اختیارات دینے سے متعلق ہے۔ نقص ِامن کے ماحول میں شدت جب اپنی انتہا کو چھونے لگتی ہے تبھی فورس کا یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ حسب تقاضہ اپنے طور پر فیصلہ کرکے قدم اٹھا لے۔ یہ اختیار اپنی نوعیت کے اعتبار سے بے ہنگم ہرگز نہیں لیکن تیر اندازی میں مہارت اِس بات کی ضمانت نہیں کہ نشانہ کبھی خطا نہیں ہوگا۔ کامیاب نشانہ بند کارروائیوں کی تو چہار طرفہ ستائش ہوتی ہے لیکن اندازہ غلط ہو جانے سے جو نقصان ہوتا ہے اُس کی کبھی بھرپائی نہیں ہوپاتی۔ معاوضہ کم ہو یا بہت زیادہ،وہ تلافی کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ ذہنی اختراعات اور ایجادات کے ذریعہ اندازے سے قطعیت کی طرف بڑھا جائے۔
حکومت اور عوام کا رشتہ صرف سیاسی اور انتخابی نہیں۔ دونوں سماجی رشتے میں اٹوٹ طور پر بندھے ہوئے ہیں۔یہ وہ رشتہ ہے جو یکطرفہ طور پر کبھی نہیں ٹوٹتا۔ البتہ ایک دوسرے کی ضرورت کے بے جا استحصال سے اس میں خلل پڑنے لگتاہے۔وطن عزیز میں نکسلی تحریک سے موجودہ ایک سے زیادہ شدت پسندانہ تحریکوں کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ شورش پسندی کی راہ اختیار کرنے والوں کی سرگرمیوں اور ان سے نمٹنے کی سیاسی، سماجی اور انتظامی کوششوں پر ایک جمود طاری ہے۔ دونوں طرف سے کوئی ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ دونوں اپنی جامد فکر کے ساتھ ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔نتیجے میں جارحانہ اور مدافعانہ اقدامات تو نئی شکلیں اختیار کر رہی ہیں لیکن معاملات کی سطح پر کوئی ایسی انقلابی تبدیلی نہیں آرہی ہے جو مفاہمت کے امکانات کے در کو مزید وا کر سکے۔اختراعی فکر سے اِس رخ پر بھی کام لیا جائے تو عجب نہیں کہ ہر شکایت گزار کو دوسرے کی مجبوری یا معقولیت کو سمجھنے کی توفیق مل جائے اور مسئلے سے یکطرفہ نفع اور نقصان کے پیمانے پر رجوع کرنے کے بجائے فریقین از خود ایک دوسرے کے معاونین بن جائیں۔
اس کے لئے بہر حال لازمی ہے کہ بندھے ٹکے اصولوں کی پابندی سے آگے بڑھ کر زمانے کی رفتار سے اُنہی اصولوں کی عدم ہم آہنگی کا نوٹس بھی لیا جائے۔گلوبلائزڈ منظر نامے پر ایسی کئی نظیریں مل جائیں گی جہاں کہنہ روایات کی اندھی پاسداری کے خلاف بغاوت کرکے کوئی نئی مصیبت کھڑی کرنے کے بجائے اُن روایات کو ہی وقت کے نئے تقاضوں سے مانوس کر نے کا کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ ظاہر ہے بند یا نیم کھلے ذہن والے معاشرے میں سبھی حلقے ایکدم سے اِس کے لئے تیار نہیں ہوں گے لیکن ایک سلسلہ ضرور چل پڑے گا اورنئی نسل کو اس سے آشنائی مشکل نہیں ہو گی۔
قبائلی سماج سے موجودہ سماج تک کے سفر میں ہم نے کئی تجربات کئے ہیں۔ دائیں بازو کی انتہا پسندی اور اس کے خلاف بائیں بازو کی شدت پسندی کے درمیان سے ہی وہ راستہ نکلا جس پر دونوں طرف کے تائبین نے چلنا شروع کیا اور پھر اسے اعتدال کے راستے کا نام دے دیا گیا۔ اس راستے میں بہر حال جس نظم و ضبط کی ضرورت ہے اُس کا تعلق صرف سرکاری فرمان اورعوامی تابعداری سے نہیں۔اس کے کئی معنی اورمختلف تعریفیں ہیں۔زندگی خواہ انفرادی ہو یا سماجی اس کی بامقصد سرگرمیوں میں متناسب ترجیحات کی بنیاد پر لائحہ عمل تعین کرنے کو نظم و ضبط کہتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر نظم و ضبط کا تعلق ایک ایسی تدبیرسے ہے جو ایسی ہر منصوبہ بندی کی نوک پلک درست کرتی ہے جسے عمل میں لانے والے کو کسی موڑ پر پریشانی تو ہو لیکن کسی پشیمانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کسی اندیشے کو ٹالنے یا بے اثر کرنے، خاص طور پر دشمن کو غیر فعال کرکے حملے کو روکنے کی کارروائی پر مسلسل انحصار کبھی کبھی اندازے کی غلطی سے ایک ایسے نقصان سے دوچار کر دیتا ہے جس سے سبق تو حاصل کیا جا سکتا ہے، خسارے کا ازالہ کسی طور نہیں کیا جا سکتا۔
عام شہریوں کی جانوں کے نقصان والاناگالینڈ ایپی سوڈ اِس رخ پر حکومت، باغیوں اور عوام کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ کسی کے بظاہر غلط برتاو پر قابو پانا اور اُسے بدلنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ذمہ داران اِس بات پر غور کریں کہ اِن میں سے کون سی کوشش قلیل مدتی اور عارضی ہے اور کون سی طویل مدتی اور دائمی۔دوراندیشی سے رہنمائی حاصل کریں تاکہ ہر اقدام میں ایک توازن پیدا ہو۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)