لکھنؤ:
پچھلے کچھ دنوں سے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی قیادت کے مابین تنازع کی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ سیاسی حلقوں میں اس کی وجہ اترپردیش میں قیادت کی تبدیلی اور کابینہ میں توسیع بتائی جارہی ہے ، لیکن اس کے پیچھے ایک اور کہانی سامنے آرہی ہے۔ ذرائع کے مطابق آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سے پہلے بی جے پی قیادت اترپردیش کو تقسیم کرکے الگ پوروانچل ریاست بنانے پر غوروخوض کررہی ہے ۔
’دینک بھاسکر‘ میں شائع خصوصی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی اور سابق بیوروکریٹ اے کے شرما کو اترپردیش بھیجنے اور انہیں قانون ساز کونسل کا ممبر بنانے کو بھی اسی سے جوڑ کر دیکھا جار ہاہے۔ شرما کچھ عرصہ سے وزیر اعظم کے پارلیمانی حلقہ وارانسی میں کورونا مینجمنٹ سنبھال رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر پوروانچل کا قیام ہوا تو گورکھپور بھی نئی ریاست میں ہی آئے گا ، جو یوگی کا گڑھ ہے۔ یوگی 1998 سے 2017 تک پانچ بار گورکھپور سے لوک سبھا ممبر پارلیمنٹ رہے ۔ یوگی گورکش پیٹھ کے مہنت بھی ہیں ۔ ان کا مرکز گورکھپور میں ہی ہے ۔
پوروانچل میں 23 سے 25 اضلاع اور 125 اسمبلی نشستیں ہوسکتی ہیں
ذرائع کے مطابق پوروانچل میں گورکھپور سمیت 23 سے 25 اضلاع شامل ہو سکتے ہیں ۔ اس میں 125 اسمبلی سیٹیں بھی ہوں گی ۔ کہا جا رہاہے کہ ان پہلوؤں کو لے کر یوگی خیمہ اتفاق نہیں کرتا۔ غور طلب ہےکہ الگ پوروانچل، بندیل کھنڈ اور ہریت پردیش کی مانگ کافی عرصہ سے چل رہی ہے ، حالانکہ پہلے یوگی سرکار نے پوروانچل کی ترقی کے لیے 28 اضلاع کا انتخاب کیا تھا۔
پوروانچل جیتنے والا ہی یوپی کی اقتدار پر قابض ہوتا ہے
یہ خیال ہے کہ یوپی میں اقتدار حاصل کرنے کا راستہ پوروانچل سے ہی ہو کر جاتا ہے، جس کے پاس پورانچل میں زیادہ سیٹیں آئی ، وہ یہاں کے اقتدار پر قابض ہوتاہے۔ گزشتہ 27 سال میںہوئےانتخابات کو دیکھیں تو پورانچل کے ووٹرکبھی کسی ایک پارٹی کے ساتھ نہیں رہا۔ 2017 میں 27 سال بعد بی جے پی کو بھاری اکثریت توملی، لیکن 10 اضلاع میں وہ پھر بھی کمزور ہے ۔
10 اضلاع میں بی جے پی کو کام کرناہوگا
28 اضلاع پر شامل 10 اضلاع میں بی جے پی ابھی بھی کمزور ہے، جبکہ سماج وادی پارٹی کا دبدبہ بناہوا ہے ۔ کچھ اضلاع ایسے ہیں جہاں 2017 میں بی جے پی نےبرتری حاصل کی ہے ، لیکن 2022 انتخابات میں یہ برتری قائم رہے اس بات کی توقع ہے ۔ان دس اضلاع میں شامل 3 ضلع میں حد بندی کے بعد سیٹوں کی گنتی میں رد وبدل ہوا ہے ۔
پوروانچل میں بی جے پی کیوں کمزور ہوجاتی ہے؟
بنارس ہندو یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنس کے پروفیسر کوشل کشور مشرا کہتے ہیں’ بی جے پی کا پوروانچل میں کوئی ووٹ نہیں ہے۔ پوروانچل میں انتخابات کے دوران مذہب اور ذات پات دونوں چلتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی برہمن -دلت مسلم فارمولیشن کے بہانے بی ایس پی اور کبھی ایم -وی (مسلم – یادو) فارمولیشن کے بہانے ایس پی نے یہاں اکثریت حاصل کی ہے ۔ اسی طرح جب ہندوتوا کا احساس بی جے پی نے جگایا تب پارٹی کو برتری ہاتھ لگی۔‘
مشرا کہتے ہیں کہ’1991 کے بعد بی جے پی کمزور پڑگئی ہے، کیونکہ اس کے پاس ایسا کوئی مدعہ یا کوئی فارمولیشن نہیں تھا جس سے وہ ہندوتوا کاایجنڈا کھڑا کرسکے۔ 1991 میں جب ہندوتوا کا مدعہ بی جے پی نے اٹھایا تو اسے اکثریت ملی۔ 2014 میں جب نریندرمودی پی ایم بنے تو 2017 میں ایک بار پھر ہندوتوا کے ایجنڈے کے بہانے ہی پوروانچل سے اکثریت ملی،چونکہ 1991 کے بعد بی جے پی تنظیم بھی کافی کمزور تھی جو اب مضبوط بن گئی ہے ۔
کسی بھی ریاست کی تقسیم میں مرکزی وزارت داخلہ کا رول اہم ہوتاہے۔ ساتھ ہی اس ریاست کے گورنر بھی خفیہ رپورٹ مرکز کو بھیج کر ریاست کی بٹوارے کی سفارش کرسکتے ہیں، چونکہ بٹوارے کی تجویز دونوں ایوانوں سے پاس کراکر مرکز کو بھیجنا ہوتا ہے، لہٰذا اسمبلی اسپیکر کا رول بھی ضروری ہے ۔
حالانکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یوپی کی تقسیم اب قدرے مشکل ہے۔ انتخابات میں تقریباً 8 ماہ باقی ہیں ، جبکہ تقسیم اور حد بندی میں کافی وقت لگتا ہے۔ کسی بھی ریاست کی تقسیم وہاں ہونے والے انتخابات سے ڈیڑھ سال قبل کی جاتی ہے اور یوپی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست ہے۔