نئی دہلی:
سپریم کورٹ پیر کو ا س درخواست پر سماعت کے لیے راضی ہو گئی جس میں نظام الدین میں گزشتہ سال ہوئے تبلیغی جماعت کے پروگرام کے بعد مبینہ طور سے اسلام کے خلاف تعصبپیدا کرنے والی پوسٹ ڈالے جانے کے معاملے میں ٹوئٹر اور اس کے یوزرز کے خلاف سی بی آئی یا این آئی اے سے جانچ کرانے کی مانگ کی گئی تھی۔ عرضی پر سماعت اگلے ہفتےہوگی ۔ ان پوسٹ میں کووڈ 19-انفیکشن کے پھیلاؤ کی وجوہات میں سےاسے بھی بتایا گیا تھا۔
معاملے کی سماعت کی شروعات میں چیف جسٹس این وی رمن اور اےایس بوپنا نے اپنی ذاتی اہلیت سے درخواست داخل کرنے والے وکیل خواجہ اعجاز الدین سے کہا ’ وہ اسے لے کر مرکز کے پاس جائیں۔ عرضی گزار نے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اسلام کے خلاف تعصب پیدا کرنے والی پوسٹ سمیت کسی بھی مذہبی برادری کے خلاف نفرت بھرے پیغام پھیلانے کے خلاف انفارمیشن اینڈ ٹیکنا لوجی ایکٹ کے تحت رہنما اصول تیار کرنے کے لیے ہدایت دیے جانے کی اپیل کی ہے ۔‘
بنچ نے یہاں ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ ہوئی سماعت کے دوران وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ نے نئے آئی ٹی قوانین پڑھے ہیں؟ جیسے ہی اعجاز الدین نے نئے آئی ٹی قوانین پڑھنے شروع کئے بنچ نے کہاکہ وہ معاملے پر ایک ہفتہ بعد سماعت کرے گی اور اس درمیان درخواست گزار قوانین کو پڑ ھ کر تیاری کے ساتھ آسکتے ہیں۔
اعجازالدین نے تلنگانہ ہائی کورٹ کے 22 اپریل کے اس حکم کے خلاف ایک اپیل دائر کی تھی جس میں اس سے کہا گیا تھاکہ وہ بھارت میں تمام آن لائن سوشل میڈیا نیٹ ورک کو ’ اسلام کے خلاف تعصب پیدا کرنے والی‘ پوسٹ ڈالنے سے روکنے کا مرکز کو ہدایت دینے کو لے کر عدالت عظمیٰ کادوازہ کھٹکھٹائے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیاہے کہ مبینہ طور سے نفرت پھیلانے کے لیے ٹوئٹر اور اس کے یوزرز کے خلاف مجرمانہ شکایت درج کرنے کے سلسلے میں مرکز کو ہدایت دینے کی اپیل پر عدالت عالیہ نے مرکز ی سرکار کو درخواست پر صرف غور کرنے کی ہدایت دی۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت عالیہ نے اس کی ( ایف آئی آر درج کرنے کے بارے ) میں کی گئی اپیل پر کوئی واضح ہدایت نہیں دی۔