تحریر:عبدالسلام عاصم
اقتدار رخی سیاست میں کانگریس سے نکل کر بی جے پی میں چلا جانا، بی جے پی سے نکل کر سماجوادی پارٹی میں آ جانا یا کسی پارٹی میں پھوٹ ڈال کر نئی جماعت بنا لینا ہی اگر ساری جمہوری سرگرمیوں کا بنیادی محور ہے تو یہ جمہوریت کیلئے خطرناک ہے۔اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے حالات سے بیزار لوگوں کو اس کا سنجیدہ نوٹس لینا چاہئے۔ ملک میں پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات قومی اور عوامی خدمت کیلئے نہیں بلکہ سیاسی کاروبارکرنے والی پارٹیوں اور ان کے گروہوں کے محدود مفادات کے تحفظ کی خاطر کرائے جاتے ہیں۔ ایک ٹورنامنٹ کھیلا جاتا ہے جس کے لئے وقتی طور پر انقلاب کا خواب دیکھنے والے ووٹروں کو جگا کر سرگرم کر دیا جاتا ہے اورمفاد پورا ہونے کے بعدایک بار پھر اُنہیں حسین سپنوں کی نیند والی گولیاں کھلا کر اگلے الیکشن تک گہری نیند سلا دیا جاتا ہے۔
دہائیوں سے جاری اس سلسلے کے نئے موڑ پر دیکھا جائے تو ایک عجیب سا جمود نظر آئے گا۔ انتخابی مرحلے سے گزرنے والی ریاستوں میں نہ تو عوام کی سوچ اور حالت میں کہیں کوئی انقلاب آیا ہے اور نہ ہی خدمت گزاری کا دھندہ کرنے والوں کی دل بدلی والی پہچان میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔سیاسی موسم کی پیشن گوئی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ دل بدلی کرنے والوں پر نظر رکھ کر ہی پیشن گوئی کرتے ہیں۔اُن کا کہنا/دعویٰ ہے کہ پنجاب اور یو پی میں اپنی باری کی منتظر پارٹیوں/ حلقوں کی ہی اگلی حکومت بننے جارہی ہے! یہ استلال کہاں تک درست ہے ، اس کا پتہ تو 10 مارچ کوہی چلے گا۔
اس بیچ حکمراں اور اپوزیشن کیمپ چلانے والوں اور اُن سے آس لگانے والوں میںایک دوسرے کی مخالفت پر اتری ہوئی بھیڑذہنی طور پر اِس بُری طرح کنڈیشنڈ ہے کہ اُن سے معقولیت پر مبنی معاملات کئے ہی نہیں جا سکتے۔ نوبت یہاں تک کیسے پہنچی اس کا میڈیا کو خوب اندازہ ہے لیکن زندگی کے ایک سے زیادہ شعبوں میں کارپوریٹ کلچر سرائیت کر جانے سے میڈیا والے کہیں حالات کے ہاتھوں بے بس تو کہیںخبروں کی جگہ نظروں کے کاروبار کی کشش کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ ایسے میں حالات سے مایوس اور بیزار حلقوں میں عوامی بیداری کی تمام تر تڑپ کے باوجود ایسی کوئی صورت نہیں بن پا رہی ہے جو فرقہ وارانہ عدم برداشت اور نظریاتی کشاکش سے آلودہ ماحول میں تدبیر کے محاذ پر یو ٹرن کا راستہ ہموار کر سکے۔
وطن عزیز میں فرقہ وارانہ محاذ پر اس وقت جو تشویشناک صورتحال شدت اختیار کرتی جا رہی ہے، وہ جانے انجانے میں اکثریت اور اقلیت کے ووٹوں کے تاجروں کی امداد باہمی سے پیدا ہوئی ہے۔آستھا اور عقیدے میں پناہ ڈھونڈنے والا عام آدمی یہ ادراک کبھی نہیں کر سکتا کہ ملک کے ہر مخدوش خطے میں اس وقت جو تباہی مچی ہوئی ہے وہ اسٹیجوں پر بین مذاہب ہم آہنگی کی موقع پرستانہ نمائش اور اسٹیج سے دور محلوں اور گلیوں میں فرقہ وارانہ منافرت کے کاروبار میں اشتراک کا نتیجہ ہے۔انتخابی ریلیوں میں کل بھی انہی حوالوں سے سارا کاروبار کیا جائے گا اور لوگوں کو ایک دوسرے سے ڈرا نے کے نڈر کاروباری حسب توفیق منافع بٹور کر اپنی اپنی عیش گاہوں میں لوٹ جائیں گے۔
اس سچ سے انکار ممکن نہیں کہ مرکز میں موجودہ حکمراں جماعت سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگانے کے باوجود پارلیمانی اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں یکساں ترجیحات کے ساتھ اکثریت کا ووٹ بینک اپنے لئے مضبوط رکھنا چاہتی ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ کل اس کی بنیاد اقلیتی ووٹ بینک کی شکل میں کانگریس نے رکھی تھی۔تو کیا ووٹ بینک کی سیاست کے انجام سے موجودہ حکمراں بے خبر ہیں! کیا اُنہیں یہ اندازہ نہیں کہ اقلیتی ووٹ بینک بنا کرکل جس طرح کانگریس نے ملک کو نقصان پہنچایا اُسی طرح اکثریت کے ووٹ بینک کے کاروبار سے بھی ملک کو ہی نقصان پہنچے گا۔۔یہ کیسی قومی خدمتیں ہیں جوگذشتہ دو صدیوں سے انجام دی جارہی ہیں! موجودہ فرقہ وارانہ صف بندی آج جس تشویشناک مرحلے میں ہے، اسے سامنے لانے میں کیا اقتدار پسند سیاست دانوںنے بین مذاہب اشتراک کے ذریعہ کسی کے ساتھ مجبوری تو کسی کی خوشامد کی سیاست کا کاروبار نہیں کیا ! کوئی خرابی ایسی کہیں نہیں جو دیکھنے والی نظر سے پوشیدہ ہو۔
آئیے اب چلتے ہیں کچھ ایسی عوامی مسائل کی طرف جن پر عالمی وبا کورونا کے نزول سے پہلے کل بھی روایتی انتخابی جلسے خموش تھے اور آج بھی ورچوئل انتخابی مہم میں ان کا کوئی ذکر نہیں۔ ان مسائل کے حوالے سے بس کاغذی کام کاج چلتا رہتا ہے۔ غریبی کاکثیر جہت اندازہ لگانے والے پیمانے کے مطابق ہندستان کی ایک سے زیادہ ریاستوں میں لوگ انتہائی غریبی میں جینے پر مجبور ہیں۔ 2020 کے اوائل میں کورونا وائرس کے اچانک پھیل جانے سے ہندستان میں بہت سے لوگوں کو غریبی نے بُری طرح دبوچ لیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2021 کے اواخر تک غریبی کا شکار ہو کر رہ جانے والوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ عالمی وبا کی وجہ سے بڑے پیمانے پر لوگ ملازمتوں سے محروم ہوئے ہیں۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین ایکنامی کی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں تقریباً 70 لاکھ نوکریاں ختم ہوئیں۔لوگوں کے گھروں میں حتمی خریداری کے اخراجات اور ترقیاتی کاموں پرسرکاری اخراجات میں کمی آئی ہے۔ اس سے اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ہندوستان میں غریبی اور بڑھ سکتی ہے۔
اسی طرح ملک کو اور بھی ایسے مسائل درپیش ہیں جن کا نہ تو کوئی حل نکالا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں انتخابی جلسوں کا موضوع بنایا جاتاہے۔مشرقی مہاراشٹر کے ودربھ اور مراٹھواڑہ میں کروڑوں کی تعداد میں لوگ سوکھے کے دنوں میں پریشان رہتے ہیں۔ماقبل کورونا ماضی قریب میں پانی کی قلت نے ایک مرتبہ ایسی سنگین صورت اختیار کر لی تھی کہ بمبئی ہائی کورٹ نے آئی پی ایل مقابلے مہاراشٹر سے کہیں اور منتقل کرنے کا حکم جاری کر دیاتھا۔سالانہ کئی لاکھ لوگ فضائی آلودگی سے مر جاتے ہیںاورصنفی امتیاز تو اپنی جگہ خواتین کی سلامتی اور تحفظ بدستور ملک کے لئے ایک بڑی آزمائش بنی ہوئی ہے۔ان موضوعات کو اگر انتخابی موضوع نہیں بنایا جاتا تو اس کی خاموش وجہ یہ ہے کہ ملک کی سیاسی پارٹیاں حقیقی عوامی بیداری کی حوصلہ شکنی کے محاذ پر ایک ہیں۔ جو اتحاد بین مذاہب اور بین فرقہ عوام میں ہونا چاہئے تھا ، اُس اتحاد کی اہمیت کو ووٹ بینک کے تاجروں نے پہچان کر اُسے اپنا لیا ۔
اس تادیر نہ بدلنے والے پس منظر میں بہر حال پچھلے سال کی طرح اس سال بھی اسمبلی انتخابات عالمی وبا کورونا کی ایک نئی قسم کے پھیلنے کے خوف کے سائے میں ہو رہے ہیں۔اس لئے ڈر ہے کہ سابقہ موقع کی طرح اس بار بھی انتخابی ریلیوں سے بس سیاسی پارٹیوں کو کم و بیش فائدہ پہنچے گا۔ عوام کو جان و مال کی بھاری قیمت چکانا پڑسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے غالباً اسی اندیشے کے پیش نظر اس مرتبہ پہلے تو پندرہ جنوری تک پھر 22 جنوری تک انتخابی ریلی پسندوں کو صبر و ضبط سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔باوجودیکہ انتخابی دکانداروں میں وہ بے چینی پائی جاتی ہے کہ ذرا سا اشارہ ملتے ہی ضبط کے سارے پشتے ٹوٹ سکتے ہیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)