نئی دہلی :
کسی بھی عقیدہ و عمل کا قابل یقین و تعمیل ہونے کے لیے اس کا مستند ہونا ضروری ہے، متن کے افہام و تفہیم کے لیے زائد چیزوں سے مدد لی جا سکتی ہے، گزشتہ کچھ عرصے سے اجودھیا کو ہندو مرکز عقیدت و عقیدہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جبکہ یہ حقیقت کے مطابق نہیں ہے، ویسے بھی رام کو ہندو علامت و نشان کی حیثیت سے پیش کرنا صرف برہمن وادی کھیل کا حصہ ہے۔
رام، رامائن کے گہرے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اونچ نیچ پر مبنی طبقاتی نظام کے حامی عناصر اپنے تفوق و نظریہ کے حساب سے کردار و کہانی اور روایات میں گھٹانے بڑھانے کا کام کرتے رہے ہیں، رامائن سیریل ساز، رامانند ساگر نے بھی سیریل کی قسط نمبر 76 میں تسلیم کیا ہے کہ رام، رامائن کہانی میں الحاقات اور اضافوں سے کام لیا گیا ہے، ہم نے بھی موجودہ وقت کے مطابق چیزوں کو پیش کرنے کا کام کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ماضی کے کردار اور کہانی میں حالات کے حساب سے کمی و بیشی کیسے کی جا سکتی ہے۔
اس سے ماضی سے حال کا رشتہ قائم کیسے رہ سکتا ہے، راما نند ساگر نے سیریل میں جگہ جگہ، آر ایس ایس اور فرقہ پرست ہندوتو وادیوں کے زیر اثر جے شری رام نعرہ کا اضافہ کر دیا ہے ہر ہر مہا دیو کا نعرہ بھی جوڑ دیا گیا ہے، جبکہ اصل رام کہانی والمیکی رامائن میں ایسا کچھ نہیں ہے، جے شری رام کا نعرہ تو بالکل نیا ہے، یہ رام بولا، عرف تلسی داس، اور کمبن وغیرہ کی رامائن میں بھی نہیں ہے، گرچہ تلسی داس ، اکبر، جہاںگیر کے عہد حکومت خصوصاً عہد اکبری کے طرز حکومت پوری آزادی ہونے کے باوجود اس سے زیادہ خوش نہیں تھے، کمزور ہوتے طبقاتی نظام، ورن آشرم سے بہت پریشان تھے، کبیر، نانک، وغیرہ کی تحریک سے برہمن وادی طبقاتی نظام اور اوتار واد کے نظریے پر پڑنے والے اثرات سے تلسی داس کو لگ رہا تھا کہ ہمارا وجود خطرے میں ہے، اس کے باوجود، بعد کے دنوں کے مراسم و مظاہر کو اپنی تخلیقات میں جگہ نہیں دی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ تلسی داس جی، بعد کے، پران، اپنشد، گیتا ،مہابھارت کے دور کے افکار و روایات کو پہلے کے ، رام چندر کے تیرتا عہد میں لے جانے کا کام کیا ہے اور اپنی باتوں کی تائید و تقویت کے لیے رام کے نام کا استعمال کیا ہے، اس کے لیے ان پر تنقید بھی کی گئی ہے، لیکن عہد جدید کے ہندوتو وادیوں نے تو حد ہی کردی ہے، ان کی طرف سے راون اور راکشش اور تفوق پسند، تنگ نظر اور متعصب حکمرانوں کے کاموں کو رام کے نام سے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، یوپی انتخابات کے پیش نظر، دیگر مسائل کو نظرانداز کرنے اور ان سے توجہ ہٹانے کے لیے رام اور اجودھیا کی بات سامنے لانے کا جتن کیا جا رہا ہے، اجودھیا ماضی میں بودھ مت، جین ازم اور مسلم وغیرہ سب کا مشترکہ مرکز رہا ہے، لیکن اب ہندوتو کے مرکز کے طور پر پیش کیا رہا ہے، تلسی داس نے ہندو سماج کے طبقاتی نظام کے حوالے سے باتیں یقیناً کہی ہیں لیکن اسلام اور مسلم سماج کے متعلق نفرت و جارحیت کا اظہار نہیں کیا ہے،وزیراعظم نے اجودھیا کی عظیم روایات، عظیم روحانی مقام اور عظمت کے ذکر کے ساتھ اجودھیا کی پہچان کا جشن منانے اور جدید طریقے سے اس کی تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھنے کی طرف متوجہ کیا ہے، یہ اچھی بات ہے لیکن وضاحت مفقود ہے،جب اجودھیا اور رام کو فریق اور فرقہ وارانہ رنگ میں پیش کرنا راست رویہ نہیں ہے ، بی جے پی اور سنگھ کے لوگ رام کے کردار کے ساتھ چلتے نظر نہیں آتے ہیں، ان کی سچائی، تحمل، مسکراہٹ، مخالفین کا خیال و احترام، ایمانداری نظر نہیں آتی ہے۔