تحریر:سید افتخار گیلانی
نوے کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں نسل پرست نظام کے خاتمہ کے بعد جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں غیر سفید فام طبقات کو ان کا حق دلانے کیلئے اصلاحات کی گئیں، وہیں کرکٹ بورڈ اور دیگر کھیلوں کے ذمہ داران کو بھی بتایا گیا کہ ٹیموں کیلئے بھی غیر سفید فام کھلاڑی تیار کریں۔ کیونکہ سفارت کاروں کی طرح کھلاڑی بھی ملک کی ثقافت، تہذیب، رہن سہن، اور یگانگت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اس سعی کا اثر یہ ہوا کہ چند برسوں میں ہی جنوبی افریقہ کی کرکٹ اکیڈیمیاں عمر ہنری، ہرشل گبس، پال آدمز، رباڑا ، ہاشم آملہ اور دیگر لاتعداد غیر سفید فام کھلاڑیوں کو سامنے لے آئیں، جنہوں نے کرکٹ کے علاوہ ملک کا نام روشن کیا۔ 2007کے بعد تو کرکٹ بورڈ کیلئے لازم قرار دیا گیا کہ قومی ٹیم میں کم از کم چھ کھلاڑی غیر سفید فام اور ان میں دو تو لازماً سیاہ فام افریقی ہونے چا ہیئں۔ سفید فام کھلاڑیوں نے ا س پر احتجاج بھی درج کروایا ۔
ان کا کہنا تھا کہ اسپورٹس ایک مسابقتی شعبہ ہے اور اسمیں میرٹ ہی مدنظر ہونا چاہئے۔ مایہ نا ز بلے باز کیون پیٹرسن نے تو جنوبی افریقہ کو ہی خیر باد کہہ کر انگلینڈ کی طرف سے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنی شروع کی۔ مگر حکومت کا کہنا تھا کہ اگر ٹیم ملک کی آبادی اور اسکی کثرت کی نمائندگی نہیں کرتی ہے، تو اس کا نہ ہونا ہی بہترہے۔ مگر یہ بھی دیکھا گیا کہ سبھی طبقات کو قومی ٹیم میں نمائندگی دینے سے ٹیم کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں پڑا ، وہ فتوحات کے جھنڈے متواتر گاڑتی گئی اور دیگر ٹیموں کی ہی طرز پر ہی ا س پر بھی اتار چڑھائو آتے گئے۔
مگر چند برس قبل جب ایک جریدہ ا کنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی Economic and Political Weekly نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ بھارتی ٹیسٹ کرکٹ کی نوے سالہ تاریخ میں کل 300کرکٹروں میں سے بس چار ہی دلت یعی نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ٹیم میں ابھی تک جگہ بنائی ہے، تو ا س پر ایک طوفان مچ گیا۔ بتایا گیا کہ کرکٹ سلیکشن کو ذات پات اور مذہب سے الگ رکھ کر صرف میرٹ پرہی پرکھنا چاہئے۔ مگر حقیقت ہے کہ بھارت کی موجودہ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں میں بھی سات برہمن ہیں اور تین دیگر اعلیٰ طبقوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پچھلے نوے سالوں میں بھارتی ٹیم میں اعلیٰ ذاتوں کی کم و بیش یہی شرح رہی ہے۔ سوال ہے کہ جب کرکٹ ایک طرح سے ملک میں خواص و عام کیلئے زندگی کا جز وبن چکی ہو اور کرکٹ کے کھلاڑی رول ماڈل ہونے کے ساتھ ساتھ بے شمار دولت بھی اکھٹا کرتے ہیں تو یہ کھیل نچلے طبقات کو متوجہ کیوں نہیں کرتا ہے؟اس شعبے میں آج بھی کیوں برہمن طبقے کی بالا دستی ہے جو بھارت کی مجموعی آبادی کا بس 3.5فیصد ہے؟
برہمن ، چھتری ، ویشیا یا بنیا، جو ہندو آبادی کی اعلیٰ ذاتیں مانی جاتی ہیں، کل آباد ی کا صرف 15فیصد ہیں اور کرکٹرز میں ان کا تناسب تو 90فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ پچھلے سال ایک دلت لیڈر، مرکزی وزیر اور موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کے حلیف رام داس آٹھوالے نے تجویز دی تھی کہ کرکٹ میں دلت کھلاڑیوں کیلئے جنوبی افریقہ کی طرز پر کوٹا رکھا جائے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کم از کم اکیڈیمی اور نچلی سطح کی کرکٹ میں اس طرح کا کوٹا نافذ کردینا چاہئے۔ محقق سری وایام آنند کے مطابق کرکٹ کا کھیل برہمن کے رسم و رواج کے ساتھ عین مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ اس کھیل میں دیگر کھیلوں کے برعکس دیگر کھلاڑیوں کو چھونا نہیں پڑتا ہے۔ بس گیند اور بلا ہی ایک دوسرے کو چھوتے رہتے ہیں۔
مشہور تاریخ دان اور مصنف رام چندر گوہا نے بھارتی کرکٹ پر لکھی اپنی دو تصنیفات میں درج کیا ہے کہ جب برصغیر میں کرکٹ کی بنیاد ڈالی گئی تو کئی دلت کھلاڑی اس کا حصہ تھے۔ متحدہ ہندوستان کے پہلے بڑے کرکٹر اور مشہور بالر پال وانکر بالو ، دلت تھے۔ وہ ایک چمار فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ 1875میںکرناٹک کے دھارواڑ شہر میں پیدا ہوئے، مگر ان کی فیملی نے روزگار کی خاطر مہاراشٹرہ کے شہر پونا ہجرت کی۔ وہ شہر کے جمخانہ کلب میں نوکری کرتے تھے، کہ وہ ایک برطانوی افسر کی نظر میں آگئے اور نیٹ پریکٹس کے دوران اس نے انکو گیند بازی کروانے پر متعین کیا۔ بس کیا تھا دیگر برطانوی افسران جو کرکٹ کھیلتے تھے، اپنی بلے بازی درست کروانے کیلئے ان سے بالنگ کرواتے تھے۔ ان دنوں شہر کی مقامی ٹیم، جو برہمن ٹیم کے نام سے موسوم تھی، برطانوی ٹیم کو ہروانے کی جستجو کر رہی تھی۔
انہوں نے بالو کو ٹیم میں شامل کردیا۔ گو کہ فیلڈ میں وہ دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ گھل مل جاتے تھے، مگر ڈریسنگ روم میں آنے یا دیگر ٹیم ممبران کے ساتھ کھانا کھانے کی ان کوممانعت تھی۔ انکو چائے یا تو مٹی کے برتن میں دی جاتی تھی یا گھر سے ا ن کو اپنا کپ لانا پڑتا تھا۔ بالو کی دیکھا دیکھی اس کے دیگر بھائی شیوارام، گنپت اور ویمل نے بھی کرکٹ کھیلنے کی شروعات کی۔ بالو اور شیوارام 1906کی اس بھارتی ٹیم کا حصہ تھے، جس نے یورپی ٹیم کے ساتھ میچ کھیلا۔
بالونے اس میچ میں آٹھ وکٹ لئے۔ مگر اس کار کردگی کے باوجود ان کو بعد میں ڈراپ کیا گیا۔ خدشہ تھا کہ وہ کہیں ٹیم کی کپتانی کی مانگ نہ کریں۔ احتجاج میں اس کے بھائیوں نے بھی کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔ ایک بیان جاری کرتے ہوئے، انہوں نے کہا ’’کہ انکی ذات کی وجہ سے انکو تحقیر کا نشانہ بنایا جا رہا تھااور اگر کرکٹ میں قابلیت سے زیادہ ذات کی اہمیت ہے، تو وہ اس سے کنارہ کشی کر رہے ہیں۔‘‘
ممبئی کی ٹیم میں سچن ٹینڈولکر کے ساتھی بلے باز ونود کامبلی ، جنہوں نے محض تین سال ٹیسٹ کرکٹ کھیلی نے بھی2000میں کچھ اسی طرح کا الزام لگا کر کرکٹ کو الوداع کردیا۔ کامبلی بھی دلت فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کو بھی اسی طرح کی تحقیر کا سامنا کرنا پڑا، جس سے ا نکی کارکردگی متاثر ہوگئی۔ 20ویں صدی کے اوائل تک کئی دلت مقامی و قومی کرکٹ کا حصہ رہے ہیں۔ مگر جیسے ہی راجے مہاراجوں نے کرکٹ کی سرپرستی کرنی شروع کردی، دلت کرکٹر کم ہوتے گئے۔ آزادی کے بعد کارپوریٹ سیکٹر نے راجے مہاراجو ں کی جگہ سنبھالی او سلیکشن میں کئی اور عوامل شامل ہوگئے۔
ایک کھلاڑی کیلئے کارپوریٹ نوکری کی طرح فرفر انگریزی بولنا، تعلیم اور نفاست ضروری جز وبن گئے ، اسکو جنٹلمین گیم کا نام دیا گیا۔ جس کی وجہ سے کسی دیہاتی ٹائپ سنگلاخ شخص کیلئے کرکٹ میں کیرئیر بنانا مشکل ہوگیا۔2008میں کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری نرنجن شاہ نے جنوبی افریقہ کی طرز پر بھارت میں بھی کرکٹ میں کوٹا سسٹم لاگو کرنے کی تجویز دی تھی۔ ان کا کہناتھا کہ ٹیم میں کم از کم سات کھلاڑی نچلے طبقات سے آنے چاہیئں۔ مگر اس پر بورڈ میں ہی ہنگامہ برپا ہوگیا اور اسکو سرد خانہ میں ڈال دیا گیا۔
دلتوں کے برعکس بھارتی کرکٹ ٹیم میں مسلمانوں کی نمائندگی نسبتاً بہتر رہی ہے۔ ممبئی ، دہلی، بنگلور، حیدر آباد اور کولکتہ سے نکل کر کرکٹ جوں جوں چھوٹے شہروں کو منتقل ہوتی گئی، ٹاپ کرکٹروں میں مسلمانوں کا تناسب جو 1950میں چار فیصد تھا، اس صدی کی شروعات تک 12.5فیصد پہنچ گیا تھا۔ سوربھ گنگولی نے اپنے دور کپتانی میں پانچ مسلم کرکٹروں کو ٹیم میں شامل کروایا۔اسی طرح 27 مسلمان کھلاڑیوں کو حال ہی میں انڈین پریمیر لیگ میں کھیلنے کا موقع ملا، جن میں 19 بائولر ہیں ۔ ان میں آٹھ آل راونڈر اور بقیہ آٹھ بلے باز ہیں۔ 2000 کے بعد قومی ٹیم میں جو آٹھ مسلمان شامل کئے گئے ان میں بھی پانچ بائولر تھے۔ اسکی شاید وجہ یہ ہے کہ بلے بازی کیلئے ساز و سامان و ٹریننگ خاصی مہنگی ہے، جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتی ہے۔
مگر اب لگتا ہے کہ دلتوں کی طرح کرکٹ میں مسلمانوں کو بھی اب زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جائیگا۔ حال ہی میں جس طرح اتراکھنڈ صوبہ کی کرکٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں اور بعد میں وزیروں نے معروف بلے باز وسیم جعفر کو نشانہ بناکر ان پر فرقہ پرستی کا الزام لگا کر کوچنگ سے فارغ کروایا ، وہ بھارت کی عمومی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ جعفر کرکٹ کی دنیا کے مایہ ناز بلے باز رہے ہیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں انہوں نے سب سے زیادہ 19,000رن بٹورے ہیں۔ ان پر الزام تھا کہ وہ ڈریسنگ روم میں ایک مسلمان کھلاڑی کو نماز ادا کرنے دیتے تھے اور جمعہ کی نماز ادا کرنے کیلئے کوچنگ چھوڑ کر مسجد میں چلے جاتے تھے۔ جبکہ جعفر کا کہنا ہے کہ بورڈ سیکرٹری ماہم ورما فیلڈ میں جانے سے قبل کھلاڑیوں کو ’رام بھکت ہنومان کی جے‘ کا نعرہ بلند کرنے پر زور دیتے تھے ، جس پر انہوں نے اعتراض کیا تھا۔
42سالہ جعفر حال ہی میں بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ کرکٹ کمنٹیٹر مکل کیسوان کے مطابق اتراکھنڈ کے کرکٹ سیکرٹری کی ہرزہ سرائی سے زیادہ ان کو اس بات پر دکھ پہنچا کہ چند ایک کو چھوڑ کر کوئی بھی معروف و مشہور کرکٹر ان کی مدد کرنے اور دفاع میں سامنے نہیں آیا۔ جبکہ چند روز قبل یہی کرکٹر بشمول سچن ٹینڈولکر دہلی میں دھرنے پر بیٹھے کسانوں کے حق میں ٹویٹ کرنے والے امریکی پاپ سنگر رابن ریہانہ اور نوعمر ماحولیات کارکن گریٹا تھن برگ کے پیچھے پڑ گئے تھے۔
جعفر کے معاملے پر ان کو سانپ سونگھ گیا۔وہ 1936کے برلن اولمپکس کے افتتاح کے موقع پر ہندوستانی ہاکی ٹیم کے کپتان دھیان چند کا طرز عمل بھول گئے، جس نے اپنی ٹیم کے ممبران کو جرمن ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر کو سیلوٹ کرنے سے منع کردیا تھا۔ اسی طرح باکسر محمد علی نے ویت نا م میں امریکی افواج کی طرف سے ہلاکتوں کے خلاف 1960 میں روم اولمپک میں جیتے میڈل کو دریا میں بہا دیا تھا۔ کیسوان کے مطابق زیادہ ذمہ داری ممبئی کرکٹ ایسوسی ایشن اور اسے وابستہ کرکٹروں کی بنتی تھی، جن کیلئے جعفر نے دو دہائیوں تک بلے بازی کی۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)