غزہ میں اسرائیلی جنگ کے 13 ماہ مکمل ہونے کو ہیں جبکہ اس جنگ کے دوران بچوں اور عورتوں کی ہلاکتوں پر دنیا بھر میں غم و غصے کی لہر شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ خواتین اور نوجوانوں میں اس پر ردعمل نسبتاً زیادہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسرائیل کی اس جنگ کو بےرحمانہ اور نازی ازم کا اسرائیلی ایڈیشن سمجھتے ہیں۔ اس لیے اس کے خلاف جگہ جگہ احتجاج، دھرنے اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں۔لیکن 2 نومبر کو ایک عجیب و غریب احتجاج دیکھنے میں آیا کہ فلسطینی آزاد ریاست کے حامی اور فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے مخالفین نے اعلان بالفور کے 107 سال مکمل ہونے پر سخت احتجاج کیا ہے اور اس دوران اسرائیل کے پہلے صدر کے مجسمے کو برطانیہ کی ایک یونیورسٹی سے غائب کر دیا گیا ہے۔
غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ اور فلسطین پر اسرائیلی قبضے سے رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اسرائیل اور اس کے حامی ملکوں کی بنائی گئی مصنوعات کا بھی تیزی سے بائیکاٹ جاری ہے۔ اسرائیلی معیشت تیزی سے متاثر ہو رہی ہے۔ جیسا کہ اسرائیل نے دو روز قبل جنگ کے دوسرے سال کے لیے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے۔برطانوی پولیس نے اس امر کی اتوار کے روز تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی صدر کے مجسمے موجود نہیں ہیں ۔ پولیس کے مطابق اس واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
غزہ جنگ کے مخالف مظاہرین کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ‘ہفتہ کے روز 2 نومبر کو اعلان بالفور کو 107 سال مکمل ہو ئے ہیں۔ اسی لیے یونیورسٹی آف مانچسٹر سے اسرائیل کے پہلے صدر چیم وائزمین کے دو مجسمے ہٹا دیے گئے ہیں۔’ پریس ریلیز کے مطابق یہ دونوں مجسمے ڈسپلے کیس سے ہٹائے گئے ہیں۔برطانوی پولیس نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کو بتایا ‘شمال مغربی انگلینڈ کی یونیورسٹی سے مبینہ طور پر مجسمے کے غائب ہونے کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ ‘یاد رہے 2 نومبر 1917 کو برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے یہودی ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔ اس غرض کے لیے انہوں نے جیوش کمیونٹی کے سربراہ کو خط لکھا۔ یہ خط پہلی بار 2 نومبر 1917 کو شائع ہوا۔ یوں یورپ سے تمام یہودیوں کو مشرق وسطیٰ میں لے جا کر آباد کرنے کا بانی ملک دراصل برطانیہ ہے۔ادھر لندن میں جنگ مخالف گروپ ‘فلسطین ایکشن’ کی طرف سے یہودیوں کے خیراتی ادارے ‘جیوش نیشنل فنڈ’ کے دفتر پر پینٹ سے سپرے کر دیا گیا۔ اسی طرح کا ایک احتجاج برطانیہ اسرائیل کمیونیکشن اینڈ ریسرچ سنٹر کی لابی میں بھی سامنے آیا ہے۔
ان احتجاجی مظاہرین کے ساتھ کیمبرج یونیورسٹی کے طلبہ بھی شریک احتجاج ہیں۔ جنہوں نے یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف مینوفیکچرنگ اور سینٹ ہاؤس پر پینٹ سے سپرے کیا۔ امریکہ سمیت یورپ کی بہت ساری یونیورسٹیوں کے طلبہ، طالبات اور اساتذہ غزہ میں اسرائیلی جنگ اور اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہزاروں بچوں اور عورتوں کی ہلاکتوں پر کئی ماہ سے احتجاج کرتے چلے آرہے ہیں اور نوجوانوں میں اس بارے میں بطور خاص احتجاجی لہر موجود ہے-