تحریر:مولاناعبد الحمید نعمانی
برہمن وادی تفوق پر مبنی ہندوتو وادی سماج مختلف قسم کے نظریاتی و عملی بحرانوں میں مبتلا ہے اس کے سامنے کوئی واضح اور صحیح بنیادوں پر مبنی کوئی آدرش اور نظام حیات و عقیدہ نہیں ہے ، اس سے اگر دیگر سے نفرت اور منفی فکرو عمل کو خارج کر دیا جائے تو ایک بے وجود سا وجود رہ جاتا ہے ، اس صورت حال نے ہندوتو وادی عناصر میں شدت و جارحیت پیدا کر کے امن پسندی، عدم تشدد اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے دعوے کی پوری طرح تکذیب و تردید ہوجاتی ہے اسے وہ عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ، بیرون ہند کے ممالک کے سامنے وہ گوتم، گاندھی وغیرہ کو پیش کرتے ہیں ، جب کہ اندرون ملک ، دنیا والوں کو دکھانے کے لیے لال قلعہ ،جامع مسجد ، قطب مینار اور تارج محل وغیرہ کے علاوہ مزید زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ کھجوراہو وغیرہ کی مخصوص عمل کی حامل برہنہ تصاویر دکھا کر مہذب سماج کی بات نہیں کی جاسکتی ہے ، فرقہ وارانہ خطوط پر سرگرم عمل پارٹیوں ،تنظیموں اور اداروں اور ان سے وابستہ افراد جس طرز گفتار و کردار کا کھلے عام مظاہرہ کر رہے ہیں ، اس نے بھارت کے آئین ،جمہوری اداروں اور نظام عدلیہ کے وجود پر سوالیہ نشان لگانے کا کام کیا ہے ، ایک آزاد، جمہوری نظام حکومت اور مشترکہ سماج میں کسی ایک کمیونٹی کو چاہے وہ اکثریت ہی میں کیوں نہ ہو دیگر باشندگان وطن اور کمیونٹیز پریک طرفہ تسلط قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ، ملک کے آئین اور نظام حکومت کی بنیاد میں ایسا مثبت سیکولرازم ہے ، جس کے تحت حکومت کے لیے، بغیر کسی جانب داری کے، تمام مذاہب کا یکساں لحاظ واحترام ضروری ہے ، ایسے نظام میں کمیونٹی پر مبنی برہمنی تفوق والا ہندو راشٹر کے قیام کے لیے خون ریزجدو جہد ، قطعی طور سے آئین مخالف اور بھارت کی تکثیری روایت و سماج کو ختم کرنے کی مذموم سعی ہے، گاندھی جی نے فرقہ وارانہ بنیاد پر قائم ہندو راشٹر کو مسترد کرتے ہوئے اس میں کسی بھی قیمت پر رہنے سے انکار کر دیا تھا، اس سمت میں جانے کو انھوں نے بربادی قرار دیا تھا ، گاندھی جی نے واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ یقینی طور سے ہمیں یہ گوارا نہیں کہ یونین کو ہندو ملک بنادیں ،جس میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہو، (دیکھیں ہریجن 5اور 7اکتوبر 1947کے دونوں شمارے)
تمام ہندستانیوں کے سامنے یہ بنیادی سوال ہے کہ وہ کس کا دیس بنانا چاہیں گے ، گاندھی جی کا بھارت یا گوڈسے ،گولولکر کا”ہندواستھان”؟گزشتہ چند دنوں میں جس طرح کے اشتعال انگیز بیانات ہندو راشٹر اور ہندو مسلم کے نام پر سامنے آرہے ہیں ،ان سے بھارت کی تکثیری معاشرے اور سیکولر انڈیا کی شبیہ بری طرح مجروح اور مکروہ شکل میں سامنے آرہی ہے ،ایسے شرپسند اور فرقہ پرست ،نفر ت کے سوداگر عناصر کے خلاف قانون کے دائرے میں موثر اقدامات،ملک و قوم کے حق میں ضروری ہیں ۔
سنگھ ، وشو ہندو پریشد،بی ،جے پی اور کئی سارے دیگر ہندو تو وادی ،نمائندے ہندو سنسکرتی اور سناتن دھرم اور تہذیب کی باتیں کرتے ہوئے اس کی اعلیٰ طرز حیات ہونے کے دعوے کر رہے ہیں ،لیکن اپنے دعوے پر کوئی مضبوط دلیل اور بہتر نمونہ زندگی پیش کرنے سے اب تک قاصر ہیں ، ایک جمہوری آزاد ملک میں جس طرح دوسروں کو اپنے عقیدہ و عمل کو آئین کے دائرے میں پیش کرنے کی آزادی ہے اسی طرح سنگھ،بی ،جے پی اور دیگر ہندو تو وادی بھی اپنے عقیدہ و عمل کو سماج کے سامنے پیش کر سکتے ہیں ،سوال یہ ہے کہ ان کے نزدیک کون سا نظام حیات اور طرز عمل نمونہ اور اتھارٹی کی حیثیت رکھتا ہے؟۔ کتابوں،عظیم شخصیات اور مختلف روایات میں انتخاب اور ملکی نظام حیات اور عقائد کے طور پر اپنانے سے متعلق کئی طرح کے ایسے سوالات سامنے آتے ہیں جن کے تشفی بخش اور صحیح جوابات کے بغیرکسی بھی نظام حکومت اور مخصوص راشٹر کی بات قطعی طور سے بے معنی ہے ، اس سلسلے میں ملک گیر سطح پر نتیجہ خیز بحث و گفتگو کی ضرورت ہے،ہندومت کو جارحانہ ،فاشی وادی نظام حیات میں بدلنے کی سرگرمیوں پر اگر سناتن ہندو اکثریتی سماج روک لگانے کے لیے آگے نہیں بڑھے گا تو سناتن ہندو مت کے متعلق مبینہ امن پسندی اور عدم تشدد کی بات قطعی طور سے بے معنی ہوکر رہ جائے گی، گزشتہ دنوں دہلی، ہری دوار میں جو کچھ کیا اور کہا گیا وہ تشویش ناک ہے۔
یتی نرسنہا نند گری ،سدرشن ٹی وی کے سریش چوہان، توگڑیا،انا پورنا،دھرم داس (بہار)،آنند سوروپ مہاراج،بی جے ، پی لیڈر اشونی اپادھیائے،ساگر سند ھو راج مہاراج،سوامی پرودھا نند وغیرہم جس طرح کی باتیں اور حرکتیں کررہے ہیں ، ان سے بہت اچھی طرح صاف ہوگیا ہے کہ ایسے لوگوں کے پاس، انسانی سماج اور اہل وطن کو دینے کے لیے کوئی روشنی،امن و انسانیت اور خیر نہیں ہے ، ایسی مذموم و مکردہ سرگرمیوں نے ایک بار پھر بہ قول ڈاکٹر امبیڈکر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہندوتو اور تفوق پسند برہمن وادی نظام سماج کے کے لیے لعنت وعذاب ہے ۔گزرتے دنوں کے ساتھ ،بدلتے ہوئے سماجی منظر نامے اور آزادی اور انسانی اقدار کی اہمیت کے پیش نظر وہ ازکار رفتہ ثابت ہوتے جارہے ہیں ،ایک دن آئے گا کہ شدت پسند عناصر ، تاریخ کے کوڑے دان میں بدل جائیں گے چولا اور بھیس بدل لینے سے کوئی شیطان،سادھو نہیں بن جاتا ہے ، راون نے بھی سیتا کا اغوا کرنے کے لیے، سادھو بن گیا تھا، لیکن وقت آتے ہی رام کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ گیا اور شیو بھگتی کام نہیں آئی ،ہری کے دوار پر رقص ابلیس اور راون تانڈو قطعی ناقابل فہم حرکت ہے ، اس کنفیوژن کے ماحول میں ،بھارت کے آئین کی بالاتری،سیکولرنظام حکومت اور ہندستانیوں کی باتیں بالکل صاف صاف ہونی چاہئیں،راہل گاندھی کی طرف سے ہندو تو وادیوں کی سرکار کی جگہ ہندوؤں کی سرکار بنانے کا اعلان و اظہار ہندو فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے اور ہندوتو کی فتح و اثر کے طور پر دیکھا جائے گا، ایسی نظر ملانے کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا جس سے ہوش اڑ جائے ۔
بھارت کے جمہوری نظام اور تکثیری سماج میں صرف ہندستانیوں کی حکومت ہی بامعنی اور آئین ملک کے مطابق ہوسکتی ہے ،موجودہ کنفیوژن کا نتیجہ ہے کہ مرنے مارنے کی حد تک جاکر ہندو راشٹر کے قیام کا کھلے عام اعلان کیا جارہا ہے، ہندو اور ہندوتو دونوں کو لے کر جس طرح کاابہام اور کنفیوژن ہے اس میں کسی بھی ایک نام پر ماحول سازی بھارت کے حق میں نہیں ہے ۔ سنگھ سربراہ جب حلف دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام، عیسائیت قبول کر چکے لوگوں کی گھر واپسی ہونا چاہیے تو وہ اپنے اس دعوے و اعلانیہ نظریے کی تردید و تکذیب کر جاتے ہیں کہ بھارت کے سارے باشندے ہندو ہیں ، ہندو جب دھرم نہیں ،سنسکرتی ہے تو تبدیلی مذہب اور دھر م چھوڑنے کا سوال پوری طرح بے معنی اور لایعنی ہوکر رہ جاتا ہے بذات خود وزیر اعظم نریندر مودی نے کیمرہ کے سامنے کہا کہ ہندو کوئی دھرم نہیں ،سنسکرتی ہے ، مذکورہ قسم کی متضاد باتوں کے پیش نظر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہندو تو اور ہندوتو وادیوں کے فکرو عمل کو موضوع بحث بنایا جائے اور اس کے مضر پہلوؤں اور مکردہ چہرے کو سامنے لایا جائے ۔کچھ صدی پہلے مرہٹہ انار کی اور پیشوائی غلبے پر علامہ غلام علی آزاد بلگرامی ؒ نے اپنی فارسی کتاب خزانہ عامرہ میں تبصرہ کیا تھا کہ گدا چوں بادشاہ گرد و گدا ساز جہانے را،جب فقیربادشاہ بن جائے تو سارے جہاں کوکنگال بناکر رہتا ہے ، غالباً ہم ہندستانی اسی دور سے گزر رہے ہیں ، ویسے بھی ہری کے دوار پرابلیس کی مجلس شوری سے خیر کے ظہور کی توقع محض خوش فہمی ہی ہوسکتی ہے ۔
Email:[email protected]
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)