تحریر:ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
دہلی راجدھانی سے متصل صوبہ ہریانہ کے شہر گروگرام(گڑگاوں) میں جمعہ کی نماز کی عوامی مقامات پر ادائیگی کو لے کر ہونے والے مسئلہ میں ہریانہ کے وزیراعلی کے بیان نے آگ پر گھی کا کام کیا ہے، گزشتہ جمعہ کو ہندتوا تنظیمیں مزید جوش و خروش کے ساتھ ان جگہوں پر پہنچ گئے جہاں پر جمعہ کی نماز انتظامیہ کی اجازت سے ادا کی جاتی رہی ہے، یہ نمازیں ضلع انتظامیہ و دیگر متعلقہ سرکاری اداروں کی اجازت سے ہی شروع کی گئی تھیں، عوامی مقامات پر جمعہ کی نماز کو لے کر ہوئے اس مسئلے کی شروعات 2018 میں ہوئی جب سمیکت ہندو سنگھرش سمیتی نے انتظامیہ کے ذریعے 37 جگہوں کو جمعہ کی نماز کے استعمال کے لئے اجازت دی۔ 2018 سے پہلے گروگرام میں تقریبا 106 مقامات پر جمعہ کی نماز ادا کرنے کی اجازت انتظامیہ سے حاصل تھی۔
2018 میں جس ہندتوا تنظیم نے عوامی مقامات پر جمعہ کی نماز کو لے کر احتجاجات کئے تھے اسی تنظیم نے اب 2021 میں دوبارہ انتظامیہ کو میمورنڈم دے کر یہ اعتراض و احتجاج کیا ہے کہ عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے پر روک لگائی جائے، گزشتہ تقریبا چار ماہ سے پارک و دیگر مقامات پر جمعہ کی نماز کے وقت ان تنظیموں کے کارکنان پہنچ کر ہنگامہ آرائی شروع کردیتے ہیں، ان ہنگامہ آرائی کے دوران گروگرام ضلع انتظامیہ نے دیوالی کے موقع پر 37 میں سے 8 جگہوں پر صرف مسلمانوں کی اجازت منسوخ کردی ہے، جن مقامات میں نخرولا روڈ، رام گڑھ، کھڑکی ماجرا، دولت آباد گاوں، جکرانڈا روڈ، سورت نگر فیس 1، ڈی ایل ایف فیس 3، اور بنگالی بستی شامل ہیں، ان میں سے ایک عوامی مقام جو کہ گروگرام کے سیکٹر 12 میں واقع ہے، پر جمعہ کی نماز پر پابندی لگانے کے بعد جمعہ کی نماز کے وقت ہی گووردھن پوجا کا انعقاد کیا گیا جس میں مہمان خصوصی کے حیثیت سے دہلی مسلم مخالف فسادات کے کلیدی ملزم کپل مشرا شامل ہوئے، کپل مشرا نے اپنے بیان میں کہا کہ وقف بورڈ کے پاس زمینوں کی کمی نہیں ہے جہاں پر نماز کے انتظامات ہوسکتے ہیں، مذہب کے نام پر کسی کو بھی روڈ بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ وہیں گروگرام کے ایک دیگر مقام سیکٹر 47 میں جمعہ کی نماز ادا کئے جانے والی ہی جگہ پر لگاتار ہر جمعہ کو پوجا پاٹ کیا جانے لگا۔
گروگرام ضلع انتظامیہ نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ ہم دیگر مقامات پر نماز جمعہ کی اجازت بھی منسوخ کرسکتے ہیں اگر مقامی لوگوں نے ہم سے شکایت کی، وہیں ہندو تنظیمیں مقامی لوگوں کے درمیان یہ خوف و ہراس پھیلا رہی ہیں کہ اگر ہم نے سختی نہیں کی تو روہنگیا مسلم اور بنگلہ دیشی مہاجر ان علاقوں میں گھس جائیں گے جس سے قانونی نظم و نسق پر قابو رکھنا مشکل ہوجائے گا، جس سے یقینی طور پر مقامی ہندو آبادی میں مسلمانوں کے تئیں خوف و نفرت پیدا ہوئی ہے، گروگرام میں ہونے والے یہ واقعات مقامی نوعیت کے نہیں ہیں کیونکہ صوبہ کے وزیراعلی نے توحالیہ دنوں میں “عوامی مقامات پر نماز برداشت نہیں کرنے”کے بیان دیئے ہیں، جب کہ مرکزی وزیر داخلہ نے سیاسی ریلیوں میں پہلے ہی روڈ پر نماز ادا کرنے کے خلاف بیان دے دیئے تھے۔
گروگرام میں جمعہ کی نماز پر ہونے والا مسئلہ سیاسی گلیاروں سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے، صوبائی حکومت کی پشت پناہی کے بعد ضلع انتظامیہ بھی حاشیہ پر کھڑی دکھ رہی ہے، فرقہ پرست طاقتوں کا پارکوں میں پہنچ کر نماز کو روکنا اور اس کے بعد کار اور بائکوں پر جلوس کی شکل میں سڑکوں اور محلوں میں ہنگامہ آرائی کرکے جیت کی خوشیاں منانا یقینا سماج میں اقلیتی طبقے کے خلاف ایک ایسا ذہن تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے بعد اسی طرز پر آنے والے دنوں میں ملک کے دیگر علاقوں اور شہروں میں بھی تجربہ کیا جاسکتا ہے، کئی جگہوں پر نماز اور عبادات کو روکنے کے واقعات پیش آنے شروع ہوگئے ہیں۔
سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کرکے یہ کہا گیا ہے کہ ہریانہ حکومت سماج دشمن عناصر پر گرفت رکھنے میں پوری طرح ناکام ہوئی ہے۔ جن مقامات پر ہنگامہ آرائی چل رہی ہے وہ تمام ہی مقامات گروگرام انتظامیہ کی جانب سےاجازت کے ساتھ ہفتے میں ایک دن جمعہ کی نماز کے لئے تقریبا ۲۰ سے ۳۰ منٹ کے لئے استعمال ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود خود کو 22 ہندو تنظیموں کا متحدہ محاذ کہنے والی تنظیم “سنیکت ہندو سنگھرش سمیتی” کے بینر تلے نا صرف مسلمانوں کو عبادت کرنے سے روکا جارہا ہے بلکہ وہاں پر پوجا پاٹ کرکے مسلم اقلیت کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اقلیت تو عوامی مقامات پر مذہبی عبادت نہیں کرسکتی ہے لیکن اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والے اسی وقت اور اسی عوامی مقام پر نا صرف اقلیت کو عبادت سے روک سکتے ہیں بلکہ خود وہاں پر اپنی مذہبی عبادت کربھی سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے تحسین پونہ والا بنام یونین آف انڈیا کے مقدمہ میں فیصلہ سناتے ہوئے 2018 میں کہا تھا کہ اگر کوئی بھی شخص یا افراد کا گروہ اگر کسی بھی فرد واحد یا افراد کے خلاف مذہبی شناخت کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی نفرت بھڑکانے یا افواہ پھیلانے کی کوشش کرتا ہے تو انتظامیہ کی یہ قانونی ذمہ داری ہوگی کہ ایسے افراد کی فوری طور پر شناخت کرکے ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے نیز متعلقہ مظلوم افراد کو تحفظ فراہم کرنے کی پوری کوشش کی جائے، تحسین والا فیصلے میں سپریم کورٹ نے تین طرح کے اقدام کا ذکر کیا ہے، روک تھام کرنا، علاج یعنی حل تلاش کرنا نیز سزا دینے کا مرحلہ، لیکن ہم گروگرام کے معاملہ میں دیکھتے ہیں کہ انتظامیہ نے نا تو سماج دشمن عناصر کو ماحول خراب کرنے سے روکنے کی باقاعدہ کوشش کی، نا ہی ان کے خلاف مقدمات درج ہوئے اور نا ہی کسی کوباقاعدہ گرفتار کیا گیا، اور نا ہی نمازیوں کو تحفظ فراہم کیا گیا، اصولی طور پر اگر کچھ مقامی افراد کو دشواری تھی تو وہ انتظامیہ سے شکایت کرتے اور انتظامیہ اس پر قانون کے مطابق اقدامات کرتی، لیکن گروگرام میں سنیکت ہندو سنگھرش سمیتی نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اقلیتی طبقے کو حاصل دستوری حقوق کو حاصل کرنے سے روکا۔
سوشل میڈیا پر میسیج، ویڈیوز اور فوٹوز کے ذریعے مسلم اقلیت کے خلاف ایک مہم جاری ہے، اگر یہ مہم جاری رہی تو آنے والے دنوں میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر اقلیت بھی اس فرقہ وارانہ ذہنیت کا شکار ہونے والے ہیں، چند روز قبل ہی کرناٹک میں بجرنگ دل کے کارکنان نے 29 نومبر کو جیسس پریئیر ہال بیلور میں مذہبی تقریب کے دوران حملہ کرکے عیسائیوں کی عبادت میں رخنہ اندازی پیدا کی، گروگرام میں بھی مسلم نمازیوں سے دھمکی آمیز لہجے میں کہا گیا کہ “ اگر بھارت میں رہنا ہے تو بھارت ماتا کی جئے بولنا پڑے گا”، لیکن حکومت اور انتظامیہ کوئی بھی سخت قانونی قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہے، پولیس نے ابھی تک دو مذہبی فرقوں کے درمیان نفرت بھڑکانے کے الزام میں انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 153A کے تحت ایف آئی آر تک درج نہیں کی ہے۔
ہمارے ملک میں جمہوری نظام حکومت ہے جس میں ہر مذہب اور ہر قوم کے تمام ہی شہریوں کو بلا کسی تفریق کے قانونی و دستوری تحفظ فراہم کیا گیا ہے، دستور یہ ضمانت دیتا ہے کہ آرٹیکل ۱۴ کے تحت تمام ہی شہری ہمارے قانون کی نظر میں یکساں و برابر ہیں نیز ان کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے گا، یہی وہ اصول ہے جس کو جمہوریت کی روح سے تعبیر کیا جاتا ہے، اگر سماج کا ایک فرد واحد بھی اس اصول کے خلاف کسی بھی طرح کی زیادتی کا شکار ہوتا ہے تو یہ جمہوری حکومت کی کامیابی پر سوال کھڑا کرے گا، گروگرام میں گزشتہ کئی ماہ سے جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ یقینا ہمارے ملک میں اقلیتی و اکثریتی دونوں ہی طبقات کے مابین ایک بہت ہی خطرناک پیغام عام کررہاہے اور یہ پیغام ہے کہ مذہبی تشخص اور عبادات کی آزادی اب خطرے میں ہے، اور خطرہ پیدا کرنے والوں کی پشت پناہی حکومت اگر علی الاعلان کررہی ہے تو دستوری ادارے و انتظامیہ کی خاموشی بھی سماج دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں، اب عدلیہ کے پاس معاملہ زیر غور ہے اور دیکھنا ہے کہ عدلیہ دستور کے تحفظ میں کتنی کامیاب ہوتی ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)