تحریر:| سدھارتھ وردراجن
رنجن گگوئی ایک برے چیف جسٹس آف انڈیا تھے اور ان کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب- جس کا مقصد ان کے متنازعہ دور کا دفاع کرنا ہے –ظاہر کرتی ہے کہ وہ کتنے برے وکیل بھی ہیں،وہ بھی اس وقت جب انہیں اپنا دفاع کرناہے۔ ان کے انٹرویوز کی سیریز سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے۔چیف جسٹس کے طور پر گگوئی کےدور میں تین گناہ ہوئے۔
پہلاتھا؛ اہم معالوں کو گمراہ کرنے، کچھ معاملوں کو فاسٹ ٹریک کرنے اور سیاسی طور پر حساس مسئلوں کو اپنے چنے ہوئے ججوں کو سپرد کرنے کے لیے ماسٹر آف روسٹر کے اختیارات کا غلط استعمال۔دوسرا تھا؛ مختلف بنچوں کے سربراہ کے طور پران کے انتہائی متنازعہ فیصلےجن میں ایودھیا اور رافیل جیسے اہم ترین مقدموں سے لے کر ابھیجیت ایر مترا کی اظہار رائے کی آزادی کی عرضی، جنہیں اڑیہ پولیس نے ایک لطیفہ کے لیے گرفتارکیا تھا، جیسے دوسرے مقدمات شامل ہیں۔نیشنل رجسٹر آف سٹیزن(این سی آر)پر ان کا موقف اور پناہ گزینوں کے حقوق اور بین الاقوامی قانون کے تئیں ہندوستان کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں بھی ان کا رویہ اسی زمرے میں آتا ہے۔
سپریم کورٹ کی ایک سابق خاتون ملازمہ کی جانب سے ان پر لگائے گئے جنسی ہراسانی کے الزامات کے ساتھ ان کا سلوک تیسرا گناہ تھا۔ریٹائرمنٹ کے بعد گگوئی نے اپنی پیشانی پر ایک اوربدنما داغ لگا لیا؛ انہوں نے آفس چھوڑنے کے چند ہفتوں کے اندر سرکار کی طرف سے راجیہ سبھا کے لیے نامزدگی کا تحفہ قبول کرلیا۔کسی سابق چیف جسٹس کےحکومت کی طرف سے ایسا تحفہ قبول کرنے کی صرف ایک مثال ملتی ہے، جب رنگناتھ مشرا نے عہدے سے سبکدوشی کے چھ سال بعد راجیہ سبھا کے لیے اپنی نامزدگی کو قبول کیا تھا۔
مشرا کو 1984 کے سکھ مخالف فسادات کی سرکاری جانچ کی لیپا پوتی کرنے پر انعام ملا تھا۔اپنی کتاب میں گگوئی نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئےاس شرمناک واقعہ کا حوالہ نہیں دیا ہے۔ شاید یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں ہے کہ بطور ایم پی ان کے اب تک کےکیریئر میں کچھ بھی قابل ذکرنہیں ہوا ہے۔یہاں تک کہ ایوان میں بھی ان کی موجودگی بے حدکم رہی ہے۔ان کابیان کہ وہ پارلیامنٹ کے اجلاس میں تبھی شرکت کرتے ہیں جب ان کادل کرتاہے،کی وجہ سےانہیں استحقاق کی خلاف ورزی کا نوٹس تک دیا گیا ہے۔
اپنی کتاب میں گگوئی کے پاس ایودھیا اور رافیل کےفیصلوں پر کہنے کے لیے کافی کم ہے، سوائے اس حقیقت کی آڑ میں چھپنےکےکہ بنچ کے دیگر ججوں نے بھی اس سے اتفاق کیا تھا۔اگرچہ، عام طور پر کسی جج سے اپنے فیصلوں کے دفاع کی توقع نہیں کی جاتی، پھر بھی گگوئی رافیل فیصلے میں حقائق پر مبنی غلطیوں کے بارے میں بالکل خاموش ہیں۔
ایودھیا-یہاں اس انتہائی ناقص فیصلے میں جانے کاموقع اور محل نہیں ہے،جس نے دراصل 1992 میں بابری مسجد کو منہدم کرنے والوں کو اس جرم کےلیے انعام سے نوازے جانے کی اجازت دےدی- گگوئی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ ایودھیا اراضی کے مالکانہ حق کا مقدمہ اتنا اہم کیوں تھاکہ اس معاملےسے متعلق مجرمانہ مقدمے کی سماعت مکمل ہونے سے پہلے ہی اسےفاسٹ ٹریک کرنے کی ضرورت آن پڑی ، وہ بھی تب جبکہ ہندوستان کی جمہوریت کے لیےسنگین مضمرات والےکئی اہم آئینی مسائل(مثال کےطور پرالیکٹورل بانڈ کا معاملہ، یا لاء اینڈ ایدمنسٹریشن اوریونین(آرٹیکل 370))کے لیےسپریم کورٹ کے پاس بہت وقت نہیں تھا۔
گگوئی نے اپنی غیرسنجیدگی اور بے حسی کو مزید بے نقاب کرتے ہوئے اس کتاب میں ایودھیا کے معاملے پر فیصلہ دینے والی بنچ کی ہوٹل میں وائن اور ڈنرسے لطف اندوز ہونے کی تصویر بھی شائع کی ہے اور اس کو’تاریخی فیصلے کا جشن منانے’کے عنوان سے درج کیا ہے۔
یہ لفظ صرف ان کے ہیں-نہ کہ ان کے ساتھی ججوں کے- لیکن سچائی یہ ہے کہ ہندوستان کے چیف جسٹس ایک انتہائی متنازعہ مقدمےکےاختتام کا’جشن منا سکتے ہیں’- اور اس کا اعلان عوامی طور پر بھی کرسکتے ہیں- بذات خودیہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے کتنے نااہل تھے۔جموں و کشمیر کی خودمختاری اور ریاستی حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے سےمتعلق معاملے کو ترجیح دینے میں اپنی ناکامی کے ساتھ ساتھ سابقہ ریاست کی پوری جمہوری قیادت کوغیر قانونی طور پر حراست میں لینے سے پیدا ہوئے ہیبیس کارپس کے معاملےکے تصفیہ کےطریقہ کار کا دفاع انہوں نےبے حد کمزور دلائل سےکیا ہے۔
سچائی اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ اس سوال کا جواب دینے کی کوئی کوشش نہیں کرتے ہیں کہ آخر ہندوستان میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کے سوال سے متعلق انتخابی بانڈزکےانتہائی اہم معاملے کی سماعت کیوں شروع نہیں کی گئی؟اس کتاب کے سب سے شرمناک حصے وہ ہیں، جن میں انہوں نے سپریم کورٹ کی ایک سابق خاتون ملازمہ کی طرف سے ان پر لگائے گئےجنسی ہراسانی کے الزامات سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششوں کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔
قانون اور اخلاقیات کی ذرا سی بھی سمجھ رکھنے والے لوگوں کی متفقہ رائے کے سامنے جھکتے ہوئےگگوئی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں اس معاملے میں بھی جج بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے تھی۔لیکن یہ اعتراف بھی آدھے ادھورے اور دھوکہ دہی کے انداز میں ہےکہ ؛ بنچ میں میری موجودگی، جس کے بارے میں مجھے اب لگتا ہے کہ اس سے بچا جا سکتا تھا، ایک یقین اور سمجھ سے بالاتر الزام سے پیدا ہونے والے لمحاتی غصے کا اظہار تھا۔
گگوئی اس دعوے کا اعادہ کرتے ہیں کہ اس خاتون ملازمہ کو کچھ خصوصی الزامات کے سلسلے میں یکطرفہ محکمہ جاتی کارروائی کے بعد برطرف کر دیا گیا تھا، اور یہ کسی بھی طرح سےاس کی جانب سے لگائے گئے الزامات سے متعلق نہیں تھا۔ان کا یہ دعویٰ ٹھوس کہا جاسکتا تھا اگر وہ کوئی ایسی معلومات پیش کرپاتے کہ ان ‘خصوصی الزامات’کی وجہ سے برطرفی سپریم کورٹ کے حساب غیرمعمولی نہیں ہے۔ وہ شاید اس ‘اتفاقی’ حقیقت کا بھی جواب دے سکتے تھے کہ اس خاتون کو اس کے بعدجھوٹے مجرمانہ الزامات کے تحت گرفتار بھی کیا گیا تھا اور اس کے شوہر اور بہنوئی دونوں کوہی ان کی پولیس کی ملازمتوں سے معطل کر دیا گیا تھا، جو کہ واضح طور پر انتقامی کارروائی جیسی تھی اور جس کے پیچھے ان کا ہاتھ ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
انڈیا ٹوڈے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں،گگوئی یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ‘شاید’اس بنچ میں شامل ہوناغلطی تھی، اس حقیقت پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں کہ اس دن لیے گئے فیصلے میں انھیں’کلین چٹ’نہیں دی گئی تھی۔لیکن یہاں گگوئی حقائق کے اعتبار سے غلط ہیں۔
مورخہ 20 اپریل 2019 کو دیا گیا مختصرفیصلہ اس طرح تھا:اس معاملے پر غور کرنے کے بعدہم فی الحال کوئی عدالتی فیصلہ جاری نہیں کر رہے ہیں اور یہ میڈیا کی صوابدید پر چھوڑ رہے ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے متوقع ذمہ داری کے ساتھ کام کریں اور اسی کے مطابق فیصلہ کریں کہ کیا شائع کیا جائے اور کیا شائع نہ کیا جائے، کیونکہ بے بنیاد اور ہتک آمیز الزامات نہ صرف عدلیہ کی امیج کو داغدار کرتے ہیں اور اسے ناقابل تلافی نقصان کی حد تک پہنچاتے ہیں بلکہ اس کی آزادی بھی سلب کرتے ہیں۔اس لیےفی الحال ہم غیرمطلوبہ مواد کو نہ چھاپنے کا ذمہ میڈیا پر چھوڑتے ہیں۔
اس دن گگوئی کے ذریعے از خود نوٹس لے کرکیے گئے سماعت کا موضوع اور اس کی وجہ سےگگوئی کے خلاف لگائے گئے الزامات تھے، اس لیے ماسٹر آف روسٹر کی طرف سے تشکیل دی گئی بنچ کے ذریعے کیس کے حقائق میں گئے بغیر الزامات کو (بے بنیاد اور ہتک آمیز)قرار دینا اور اسے ‘عدلیہ کے وقار کو مجروح کرنےوالا’اور اسے ‘ناقابل تلافی نقصان کی حد تک نقصان پہنچانے والا’ اور ‘اس کی آزادی چھیننے والا’ قرار دینا، کیا یہ بذات خود ‘کلین چٹ’نہیں ہے؟
اس معاملے میں اپنے رویے کے بارے میں ان کی وضاحت کا سب سےبدتر حصہ وہ ہے جس میں وہ الزام لگانے والی خاتون کی سابقہ زندگی کا حوالہ دیتے ہیں اور یہ اشارہ کرتے ہیں کہ یہ الزام کچھ لوگوں کی طرف سے اس ملازمہ کو آگے کرکے انہیں بدنام کرنے کی ایک سازش کا نتیجہ تھے۔
ان کی کتاب دی وائر کی اس نیوز رپورٹ کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ ملازمہ اور اس کا خاندان ممکنہ طور پر پیگاسس اسپائی ویئر کا نشانہ تھے۔اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ خاتون اور اس کے خاندان کے افراد کے کم از کم نو فون نمبرلیک ہونے والے ڈیٹا بیس میں تھے۔
‘یہ جاسوسی مبینہ طور پر اس کے بعد ہوئی جب متاثرہ نے 19 اپریل 2019 کو اپنا حلف نامہ داخل کیا۔’ اس کے ساتھ وہ مزید کہتے ہیں،’اس کے تمام اہم الزامات، جن پر یقین نہیں کیا گیا، مبینہ جاسوسی سے پہلے کے ہیں’۔یعنی وہ ایک طرح سےکہنا چاہتے ہیں کہ ایسے میں اس کے بعد ان کی جاسوسی کرنے کے لیے کسی کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی۔
دراصل، خاتون کی جانب سے حلف نامہ دائر کرنے کے بعد اور ان کےخاندان کی جاسوسی کا انتخاب کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں اور ان میں سے کوئی بھی وجہ گگوئی اور سپریم کورٹ میں کی ان کی قیادت کی تعریف کےلائق نہیں ہے۔
گگوئی اس براہ راست اشارے سے پریشان ہیں— حالانکہ وہ یہ نہیں بتاتے ہیں کہ یہ اشارہ کس نے کیا— کہ جمع کی گئی معلومات ان کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات کی جانچ کرنے والی بوبڈےکمیٹی نے مہیا کرائی اور استعمال کی گئی ۔ وہ آزاد میڈیاسے چڑھے ہوئے اقتدار کو خوفناک انداز میں تنبیہ کرتے ہوئے کہتےہیں،
میرے خیال سے وقت آ گیا ہےکہ صحیح سوچ رکھنے والی اکثریت اپنی آواز بلند کرے۔ وہ اب مسائل کے تئیں بے حسی کو اوڑھ کر اور تنازعات سے بچ کر اپنی آرام دہ دنیا میں چین سےبانسری نہیں بجا سکتے ہیں اور یہ سوچ کر مطمئن نہیں ہو سکتے کہ بدقسمتی نے انہیں بخش دیا ہے۔ کیونکہ اگر قابو نہ کیا گیا تو کل یہ عفریت انہیں بھی نگل سکتا ہے۔
چیف جسٹس کے طور پر گگوئی نے انصاف اور آئین کو مستحکم کرنے کے لیے کچھ خاص نہیں کیا۔ ایک رکن پارلیامنٹ کے طور پر وہ آئینی اقدار کو آج بھی اپنے سینے سے لگائے رکھنے والی’عفریت’سے مقابلہ کرنے والے اختیارات چاہتے ہیں۔
(بشکریہ: دی وائر)