مظفر نگر:
اترپردیش واقع مظفر نگرمیں گزشتہ دنوں مذہب تبدیلی کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ حالانکہ اب الزام لگانے والی خاتون نے مجسٹریٹ کے سامنے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے کچھ ہندو تنظیموں کے دباؤ میں آکر معاملہ درج کرایا تھا۔ 24 سالہ سکھ خاتون نے منگل کو دو مسلم بھائیوں کے خلاف اپنے الزامات کو واپس لے لیا، جن پر آبروریزی اور دھوکہ دہی کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔ خاتون کی شکایت پر ہی مذہب تبدیلی قانون کے تحت دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔ خاتون نے مجسٹریٹ کے سامنے سبھی الزامات سے انکار کیا۔ پولیس کے مطابق خاتون نے دعویٰ کیا کہ اس نے کچھ ہندو تنظیموں کے دباؤ کے بعد شکایت درج کرائی تھی۔
خاتون نے پہلے پولیس کو بتایا تھا کہ اس کے پڑوس کے ایک شخص نے اسے مذہب تبدیل کرنے کے لئے مجبور کرنے کے بعد اس سے شادی کی تھی۔ شخص نے خاتون پر ’نکاح‘ کے لئے مسلم خاتون کے طور پر پیش کرنے کے لئے جھوٹے دستاویز تیار کرنے کا بھی الزام لگایا۔ بتایا جارہا ہے کہ جس شخص سے اس کی شادی ہوئی تھی، وہ فی الحال جیل میں ہے جبکہ اس کا بھائی فرار ہے۔
انگریزی اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق ایس ایچ او نے کہا کہ ’مجسٹریٹ کے سامنے اپنے بیان میں، خاتون نے دونوں بھائیوں کے خلاف لگائے گئے سبھی الزامات سے انکار کیا۔ اس نے ایک ملزم سے شادی کرنے سے بھی انکار کیا اور دعویٰ کیا کہ اس نے کچھ ہندو تنظیموں کے دباؤ میں ایف آئی آر درج کرائی ہے‘۔ ایس ایچ او نے کہا کہ خاتون نے کسی بھی تنظیم کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ خاتون نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ملزم نے اس سے پیسے لئے یا اس کے ساتھ مارپیٹ کی۔ رپورٹ کے مطابق، ذرائع نے کہا کہ پولیس عدالت جانے اور ملزم کو جیل سے رہا کرنے کی اپیل کرنے کا منصوبہ تیار کر رہی ہے۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق، پولیس نے کہا کہ خاتون اتوار کو تھانے آئی اور الزام لگایا کہ ایک شخص نے شادی کا جھانسہ دے کر اس کا جنسی استحصال کیا اور اس کے پانچ لاکھ روپے نہیں لوٹائے۔ خاتون کے والد اور ملزم جنرل اسٹور چلاتے ہیں۔ خاتون نے دعویٰ کیا کہ اس نے اہم ملزم سے مئی میں شادی کی تھی۔ پولیس سے خاتون نے کہا کہ اس ماہ خاتون کو مبینہ طور پر پتہ چلا کہ اس کے ’شوہر‘ نے ایک مسلم خاتون سے شادی کرلی ہے۔ جب اس نے اس کی مخالفت کی تو اس کے شوہر اور اس کے بڑے بھائی نے مبینہ طور پر اس کے ساتھ مارپیٹ کی اور دھمکی دی۔ پولیس نے شکایت کے بعد اس کے شوہر کو گرفتار کرلیا گیا۔ ملزم شخص کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیا، جس کے بعد اسے عدالتی حراست میں بھیج دیا۔
رپورٹ کے مطابق، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ارپت وجے ورگیہ نے کہا کہ خاتون نے اپنی شکایت کے ساتھ نکاح نامہ سمیت کچھ دستاویز جمع کئے تھے۔ ہم شکایتی خط کے ساتھ خاتون کے ذریعہ دیئے گئے نکاح نامہ کی تصدیق کریں گے۔ ان دستاویزوں کی جانچ کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔