تحریر: اے آزاد قاسمی
وطن عزیز میں ملت کی نمائندہ تنظیم’’ جمعیۃعلماء ہند‘‘ اپنی تابناک ماضی کے ایک سودوسال پوری کرچکی ہے ،یہ تنظیم وسیع النظراورمحب وطن علماء عظام کے اخذ کردہ اصولوں پر پوری جرأت وجواں مردی کے ساتھ ایک بہتراور روشن مستقبل کی طرف گامزن ہے۔ جمعیۃعلماء ہند مسلمانان ہند کی ایسی واحد جماعت ہے، جس کے سپہ سالار انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے اٹھ کھڑے ہوئے،ملک کے طول وعرض میں انگریزی سامراج کے خلاف رائے عامہ کو بیدارکیا، اس کے بانیان کاآزادی سے پہلے اورآزادی کے بعد ملک کی تعمیر و تشکیل میں ناقابل فراموش کردار رہا ہے، تحریک آزادی میں ان حریت پسند علماء کا اتنا اہم رول رہا ہے کہ اگر یہ انگریزوں کی غلامی کے خلاف جنگ نہ لڑتے تو ہمیں آزادی کا سورج شاید نصیب نہ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم کے منشور میں انسانیت کو مرکزیت اور بنی نوع انسان کی فلاح وبہبود کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے اکابرین کا یہ بھی امیتازرہاہے کہ انہوں نے سب سے پہلے دو قومی نظریہ کی شدت سے مخالفت اور متحدہ قومیت کی مکمل حمایت کی تھی۔
19نومبر 1919 کو ایسے وقت میں’’ جمعیۃ علما ہند‘‘ کی داغ بیل ڈالی گئی جب انگریزی استبداداپنے آخری حدوں کو چھورہاتھا، لوگوں میں اس اجنبی خوں خوارمخلوق کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت مفقودہوچکی تھی، اس استبدادی قوت اورجبروظلم کے خلاف وقت کے بڑے بڑے دانشوران قوم کی ہمت جواب دے چکی تھی ،اس پرآشوب دورمیں بانیان جمعیۃ اور اس کے اکابرین نے مکمل آزادی کا نعرہ دیاتھا، اس جماعت کا زاویہ نظر اور طرز فکر ملک و ملت کے باب میں ہمیشہ سے مثبت، صالح اور مفید رہا ہے، خلوص اور فراخدلی کے ساتھ جمعیۃ نے ہمیشہ سماجی اور عوامی مفادکو فوقیت دی ہے ،تاریخ کے اوراق پر جمعیۃ کے کارہائے نمایاں شہہ سرخیوں میں ثبت ہیں، اس کا ماضی جس طرح بے داغ اور تابناک رہا ہے ، اُسی طرح حال کی تابندگی ایک روشن مستقبل کا پیش خیمہ ہے کہ اس جماعت کو مولانا سید ارشد مدنی جیسے جید عالم دین، صاحب فراست،بے باک، بے خوف اور نڈر قائد کی سرپرستی ومعیت حاصل ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ مسلم قیادت پر بحرانی کیفیت کی دبیزچادریں پڑی ہیں،وہ نہایت جرأت مندی کے ساتھ ملک و ملت کے مسائل پر اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں، ذرائع ابلاغ میں ملکی اور ملی حالات کے تعلق سے نہ صرف اپنے بیانات جاری کرتے ہیں بلکہ مسلم قیادت کو بھی نئی راہ اور ایک نیا راستہ دکھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا ارشد مدنی کی قیادت کو آج ملک کے تمام طبقات میں اعتبار اور وقار حاصل ہے، انہوں نے ہر محاذ پر اپنے عزم و حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے اور ان طاقتوں کو للکارا ہے جو ملک کی سالمیت، اتحاد، یگانگت اور یکجہتی کے لیے خطرہ ہیں۔ایسے پرآشوب حالات میں برملاکہا جاسکتاہے کہ مولانا مدنی ملت کے میرکارواں کا غیر معمولی فرض اداکررہے ہیں ۔
جمعیۃ علما ہند کی خدمات کے بہت سے باب اور عنوانات ہیں ،تاسیس سے لے کر اب تک جمعیۃ کا ایک مشن اور وژن رہا ہے، جس سے اکابرین جمعیۃ نے کبھی انحراف نہیں کیا، اپنے اس سوسالہ طویل سفر میں انھیں مقاصد اور اصولوں پر گامزن رہی جو جمعیۃ کے اکابر و اسلاف نے طے کئے تھے،اس جماعت کے ریکارڈسے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اس نے مسلمانوں کے مذہبی ، ملی،اقتصادی ، تعلیمی اورسیاسی ودیگر امورمیں ہمیشہ بروقت رہنمائی کافریضہ انجام دی ہے، انسانی حقوق کا تحفظ،مذہبی رواداری،امن و یکجہتی، مذہبی تشدد اور منافرت کا خاتمہ ، اقلیتوں اور دیگر پسماندہ مظلوم و مجبور طبقات کے مسائل اس کے ایجنڈے میں ہمیشہ سرفہرست رہے ہیں، کیونکہ جمعیۃ علما ہند زندگی اور سماجی فلاح وبہبود کا ایک وسیع تر تصور رکھتی ہیں جو ہر وقت اس کے سامنے رہتی ہے۔آج سے چند سال قبلبظاہر سیکولرکردارکی حامل حکومت میں پوری مسلم قوم کو ناکردہ گناہوں کی سزاکے طورپر موردالزام ٹہرادیاگیا اور ملک کے نوجوانوں پر عرصہ حیات تنگ کیاجانے لگا تو جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی نے اس وقت کے وزیرداخلہ شیوراج پاٹل کوفاشزم کاپیروکارقراردیتے ہوئے حکومت سے اس کی برطرفی کا مطالبہ کیااور ملت کے نوجوانوں کی قانونی مددکے لئے فوری طورپر لیگل سیل کے قیام کا فیصلہ کیا، 2007 میں قائم جمعیۃ لیگل سیل اپنے تجربہ کار سکریٹری جناب گلزاراحمد اعظمی کی دیکھ ریکھ میں ہر محاذ پر بلا تفریق مذہب وملت قانونی چارہ جوئی کی کامیاب کوشش کررہی ہے اور مظلوموں کے آئینی تحفظات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے اہم اقدام بھی کئے ہیں،خاص کر دہشت گردی کے الزام میں ماخوذ نوجوانوں کے مقدمات کی صرف پیروی ہی نہیں کی بلکہ ان کے اہل خانہ کی داد رسی اورمالی مدد اور انہیںہر قسم کی راحت پہنچانے کی بھی کوشش کی ہے،جمعیۃ نے انھیں باعزت رہائی دلوانے پرہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے معاوضے اور ان کی زندگی کوبہتر بنانے کے لیے بھی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں،جمعیۃکسی بھی ناگہانی آفت سماوی وغیرہ کے موقع پر صرف انسانی ہمدردری کی بنیادپرمتاثرین کرتی ہے،کیرالہ کے سیلاب متاثرین کے تعمیراتی منصوبے کے تحت تقریباً 95مکانات تعمیر کیے گئے اور انھیں ہر طرح کی راحت پہنچائی گئی،کیرالہ سے متصل کرناٹک میں ابھی چندماہ قبل 33 پختہ مکانات سیلاب متاثرین کوسپردکئے گئے ،بہار میںسیلاب متاثرین کے لیے نہ صرف خوردونوش کے مکمل انتظامات کیے گئے بلکہ بیوگان کےلیے پختہ مکانات بھی بنوائے گئے، اسی طرح گجرات سیلاب متاثرین کےلیے فوری راحت رسانی کا کام کیا گیا، مظفر نگر فساد متاثرین کے لیے جمعیۃ نے 466 مکانات اور مساجد و مکاتب بھی تعمیر کرائے، آسام کے فساد متاثرین کی بازآبادکاری کے تحت تقریباً 506مکانات تعمیر کروائے گئے اورابھی حالیہ مہاراشٹرسیلاب متاثرین کے لیے بازآبادکاری کا کام جنگی پیمانہ جمعیۃعلماء مہاراشٹراکے دیکھ ریکھ میں جاری ہے ۔
ملک کی راجدھانی دہلی میں پھوٹ پڑنے والے فساد کے موقع پر جمعیۃ نے اپنی سماجی اور ملی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے بروقت مددکے لیے آگے آئی اور متاثرین کی ہر طرح سے مدد کی، ان کی قانونی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ بلوائیوں کے ذریعہ شہید کی گئی مساجد کی تعمیرنو کے ساتھ غریبوں اور بے سہارا لوگوں کےلیے مکانات بھی تعمیر کروائے،فسادکے نتیجہ میں اپنا سب کچھ کھوچکے متاثرین کےلیے آلاتِ تجارت کا بندوبست بھی کیاگیا تاکہ وہ روزگارسے لگ کر اپنے گھروالوں کی کفالت کر سکیں۔ عالمی وبا’’کرونا‘‘ کی وحشت سے ملک میں جب افراتفری تھی تو ا سی درمیان تبلیغی جماعت کو ملک میں وائرس کے پھیلاؤ کے لیے مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ اس کے خلاف نیشنل میڈیا میں نہایت شرمناک او رنفرت انگیز مہم شروع کردی گئی، پوری قوم کو باور کرایا گیا کہ کوروناکے خطرناک وائرس کے پھیلاؤکے لیے ذمہ دار صرف اور صرف تبلیغی جماعت ہے۔ تبلیغ سے جڑے لوگوں پر قانونی کارروائیاں بھی کی گئیں اور انہیں سلاخوں کے پیچھے بھی بھیجا گیا۔یہ نہایت حساس اور سنگین مسئلہ تھا، ایسے وقت میں جمعیۃ نے کھل کر نہ صرف تبلیغی جماعت کی حمایت کی بلکہ مکمل طور پر جماعت کا دفاع کیااورتبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کے خلاف قائم کیے گئے مقدمات کی بروقت پیروی کی، جس کے نتیجے میں تبلیغ سے منسلک افراد کو باعزت رہائی ملی۔
بے لگام اورمتعصب میڈیا پر جانبدارانہ رپورٹنگ کے خلاف جمعیۃ نے عدالت عظمی کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جس کی سماعت ابھی جاری ہے،تبلیغی جماعت سے جڑے ہوئے لوگوں پر جب عرصہ حیات تنگ کیا جانے لگاتو صدرجمعیۃنے ملک کے کثیرالاشاعت اخبارات میں جماعت اور جماعت کے اعمال (گشت ،مشورہ )کو پہلے سے کہیں زیادہ بہتر طورپر جاری رکھنے کےلیے مسلمانوں سے ایک جرأت مندانہ اپیل کی جو اب تاریخ کاحصہ ہے،اپیل کے الفاظ کچھ یوں تھے’ ’اگرفرقہ پرست طاقت مرکزپر تالالگاکر تبلیغ کے کام کےلیے رکاوٹ بنناچاہتی ہے توعبادت اورتبلیغ کےلیے ہر مسجد بلکہ زمین کا ہر قطعہ (حصہ)مسجد اورمرکزہے۔انہوں آگے کہا کہ اگر کورونا کایہ قہر اپنی تمام تباہ کاریوں کے باوجود ارباب سیاست کو اپنے سیاسی مفادات کے حصول اورالیکشن کے پروپیگنڈے سے نہیں روک سکتاتوآخرت کی سرخروئی حاصل کرنے کےلیے خالص مذہبی عمل تبلیغ سے روکنے کےلیے مسلمان کی زندگی پر کیسے اثراندازہوسکتاہے؟‘‘ اس اپیل نے جماعت سے منسلک لوگوں میں ڈھارس بندھائی جو یقینا ایک خوش آئندقدم تھا ۔
جمعیۃ کا دائرہ کار یوں توبہت وسیع ہے ، لیکن یہ وسعت کبھی بھی اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی ، معاشرتی زندگی کے تمام ترشعبۂ حیات میں اس کی کامیابی کے اثرات نمایاں طورپر دیکھے جاسکتے ہیں ، تعلیم کاشعبہ کامیاب انسانی زندگی کے لیے معاشرے میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے ، دین اسلام میں اس کا حصول فرض قراردیا گیا ہے ، جمعیۃ علماء ہندکی موجودہ قیادت ملت کے صاحب ثروت حضرات کو مسلسل یہ تحریک دے رہی ہے کہ وہ تعلیمی میدان میں آگے آئیں اورملت کے نونہالوں کو ناخواندگی کی دلدل سے باہر نکالنے میں اپنا کرداراداکریں اور جگہ جگہ بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ عصری وتکنیکی تعلیم کے ادارے قائم کریں ۔ ملت سے تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کےلیے جمعیۃ کئی سالوں سے کمزور اور غیر مستطیع طلبا کو اپنے تعلیمی مستقبل کو روشن کرنے کےلیے وظائف بھی جاری کررہی ہے ، جن میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم طلبا بھی شامل ہیں۔ آج زندگی کی کسی بھی شعبہ حیات میں ملازمت حاصل کرنا پہلے کے مقابلہ ایک سخت مرحلہ بن چکاہے ،جمعیۃعلماء ہند یہ محسوس کرتی ہے کہ قوم کے ہونہاروذہین بچوں کو دوسرے بچوں کے برابر کھڑاکرنے کےلیے بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم کی اشدضرورت ہے تاکہ دوسرے بچوں کی طرح قوم کے بچے بھی مقابلہ جاتی امتحانات میں نہ صرف حصہ لیں بلکہ کامیابی حاصل کرکے ملک وقوم کی بہترطریقہ سے خدمات انجام دے سکیں، اس سلسلہ میں جمعیۃعلماء ہند ایک مثبت پہل کرچکی ہے ، چند ماہ قبل جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا اسیدارشدمدنی نے ’’مدنی۔100‘‘کے نام سے ایک نیا تعلیمی پروجیکٹ لانچ کیا ہے ،جس کے تحت ملک بھرسے سومنتخب ہونہارمگر کمزورطلباکو دہلی اور دیوبند کے مراکزکے ذریعہ اعلیٰ مقابلہ جاتی امتحان کے لیے تیارکیا جائے گا، مولانا مدنی کی اس اہم اور بروقت کاوش کو آنے والی نسلیں کبھی بھی فراموش نہیں کرسکیں گی، امید کی جانی چاہیے کہ مستقبل قریب میں اس کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ان شاء اللہ
جونقش قدم اہل جنوں چھوڑگئے ہیں
تم لاکھ مٹاؤگے وہ پایندہ رہیں گے
(راہی شہابی)
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)