رام پور :
شعبان میں نبیؐ اس کثرت سے روزے رکھتے تھے کہ گمان ہوتا اب آپ روزہ رکھنا نہیں چھوڑیں گے اور جب چھوڑتے تو ایسے چھوڑتے کہ گمان ہوتا اب آپ روزہ نہیں رکھیں گے، نیز رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں آپ کو اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا گیا جتنے روزے شعبان میں رکھتے دیکھا گیا۔ یہ بات معروف عالم دین اور جامعۃ الصالحات کے شیخ الحدیث مولانا عبد الخالق ندوی مدنی نے یوسف گارڈن میں واقع زینت مسجد میں خطبۂ جمعہ کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انھوں نے کہا کہ شعبان میں آپؐ کے بکثرت نفلی روزے رکھنے کے متعدد اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ ازواج مطہرات رمضان کے فوت شدہ روزے مؤخر کرتیں یہاں تک کہ شعبان کا مہینہ آ جاتا، اس کے بعد مزید مؤخر کرنے کی گنجائش نہیں رہتی، چنانچہ ادھر ازواج مطہرات قضا روزے رکھتیں اور ادھر حضورؐ بھی ساتھ میں روزے رکھتے۔ شعبان میں نبیؐ کے بکثرت روزے رکھنے کی دوسری وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا نے کہا کہ شعبان کے معنی منتشر کے ہیں۔ شعبان کو شعبان اس لئے کہتے ہیں کہ عرب سال بھر جنگ و جدال میں رہتے اور حرمت کے 4 مہینوں میں اس سے باز رہتے، جن میں ایک مہینہ رجب کا بھی ہے، اس کے گذرتے ہی وہ پھر اپنی فطرت پر لوٹ آتے، ان کے اسی منتشر ہونے کی وجہ سے شعبان کو شعبان کہا گیا۔ رسولؐ اللہ نے اسی پر قابو پانے کے لئے روزے کی ترغیب دی کیونکہ روزہ ان چیزوں سے مانع ہے۔
شیخ الحدیث مولاناعبد الخالق نے کہا کہ رسولؐ اللہ نے 15 شعبان سمیت شعبان کے کسی بھی دن کو روزے کے لئے مخصوص نہیں کیا لیکن آج 15 شعبان سے ایسی ایسی رسومات مخصوص کر دی گئی ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں، بلکہ ان کا شمار بدعات میں ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا حالانکہ بعض کام جو اس دن اور اس رات میں کیے جاتے ہیں ان کا تعلق نیکی سے ہے، جیسے قبرستان جانا، نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، لیکن بعض لوگ جو صرف نماز و روزے کی ادائیگی اور عورتوں سے دوری بنانے پر مصر تھے، رسولؐ اللہ نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ مولانا نے کہا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو عبادت طریقہ نبوی کے مطابق کی جائے گی، وہی عند اللہ مقبول ہوگی۔ مولانا عبد الخالق نے کہا کہ جس نے دین میں کوئی چیز ایسی داخل کی جو اس میں نہیں تو وہ قابل تردید ہے۔ ہر وہ کام جسے ثواب سمجھ کر کیا جائے لیکن وہ دین میں نہ ہوتو اس پر ثواب نہیں بلکہ عتاب ہے۔
مولانا نے شب برأت کو شب برأت کہے جانے ہی پر سوال کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ سورۂ توبہ کی رو سے برأت کے معنی بیزاری اور نفرت کے ہیں۔ لیکن یہاں اس کا مفہوم مغفرت لیا جاتا ہے جو کسی طرح درست نہیں۔ انھوں نے کہا 15ویں شعبان کے تعلق سے جو کچھ بھی ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے، کسی ایک کا ثبوت صحیح احادیث سے نہیں۔ انھوں نے کہا کہ 15ویں شعبان کے فضائل خود محل نظر ہیں، کیونکہ قرآن میں لیلہ مبارکہ لیلۃ القدر کے لئے کہا گیا ہے او وہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی رات ہے۔
مولانا نے رسومات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حلویٰ پکانے کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حضورؐ کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے اس لئے آپ نے حلویٰ تناول فرمایا تھا، جب کہ یہ ثابت ہے کہ آپؐ کے دانت غزوۂ احد میں شہید ہوئے تھے اور غزوۂ احد شوال میں واقع ہوا تھا۔
مولانا نے مردہ روحوں کے اس رات گھروں میں واپس آنے کی قرآن سے نفی کرتے ہوئے کہا کہ یہ سراسر باطل عقیدہ ہے۔ قرآن صریح انکار کرتا ہے کہ موت کے بعد کسی شکل میں دنیا میں واپسی ممکن نہیں۔
مولانا عبد الخالق نے کہا قبروں کی زیارت صحیح احادیث سے ثابت ہے، اس کی حکمتیں اور اس کے لئے دعائیں بتائی گئی ہیں۔ اس سے موت کی یاد تازہ ہوتی ہے اور آخرت کی تیاری کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ لیکن عام دنوں میں سوائے میت کو دفن کرنے کے کوئی قبرستان نہیں جاتا، مگر اس رات بالخصوص اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ قبرستانوں میں چراغاں ہوتا ہے اور جوق در جوق قبرستان جایا جاتا ہے۔ مولانا نے کہا کہ اس سلسلے میں جو حدیث پیش کی جاتی ہے وہ انتہائی ضعیف ہے کیونکہ ایک تو یہ روایت حجاج کے واسطے سے آئی ہے، دوسرے اس کی روایت میں دو جگہ انقطاع بھی ہے۔ مولانا عبد الخالق نے کہا کہ اگر رسولؐ اللہ کی سنت پر عمل کرنا ہی مقصود ہے تو ہر سال کیوں قبرستان جایا جاتا ہے؟ جب کہ رسولؐ اللہ نے زندگی میں صرف ایک بار ہی ایسا کیا اور جھنڈ کی شکل میں کیوں جایا جاتا ہے؟ جب کہ آپؐ تنہا اور انتہائی رازداری سے گئے تھے۔ مولانا نے کہا اگر آپ عام دنوں میں قبرسان جاتے ہیں تو اس رات بھی جائیے، ورنہ نہیں، یہ اسوۂ رسولؐ سے میل نہیں کھاتا۔ انھوں نے عوام کو ثواب سمجھ کر کوئی کام کر کے گناہ میں حصے دار بننے سے بچنے کی تلقین کی۔