کسی بھی تحقیق کی پہلی سیڑھی اُس تحقیق سے متعلق بنیادی اور ثانوی مواد سے آگاہی ہے۔ اگر پہلا زینہ ہی کمزور اور ناقص ہوگا تو پھر تحقیق میں وہ معنویت سامنے نہیں آ پائے گی جس کی بدولت تحقیق ارتقائی مراحل سے گزرکر معیار و اعتبار کے درجہ پر فائز ہوتی ہے۔ اس لئے کسی بھی موضوع سے متعلق پہلا بنیادی کام یہی ہونا چاہئے کہ متعلقہ موضوع پر جو بھی مواد موجود ہے، اُس سے واقفیت حاصل کی جائے۔ اِسی علمی و ادبی اور تحقیقی کلّیہ کے تحت صحافت کی کتابیات تیار کی گئی ہے تاکہ اس کا اندازہ بخوبی ہو جائے کہ دو سو برسوں میں اردو صحافت نے کیا گُل بوٹے کھلائے ہیں اور ہمارے محققین اور ناقدین نے ان کی کاوشوں کو کن کن نظریوں اور کن کن زاویوں سے جانچا اور پرکھا ہے۔ اردو صحافت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ آغاز کے ۶۶؍ برسوں کے اندر ہی اُسے تحقیق و تنقید کا موضوع بنایا گیا جب کہ اردو زبان و ادب کو، جس کی ابتدا ۱۳۵۰ء تسلیم کی جاتی ہے، چار سو برس بعد، ۱۷۵۲ء سے اُسے تحقیقی و تنقیدی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے، وہ بھی ایک آدھ جملوں میں۔ البتہ آب حیات (۱۸۸۰ء) سے اردو زبان و ادب کی تحقیق و تنقید کی نئی فضا قائم ہوتی ہے اور یہ فضا دن بہ دن خوشگوار اور وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ کم و بیش یہی صورت حال اردو صحافت میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ۱۸۲۲ء میں اس کا آغاز ہوا اور ۱۸۸۸ء سے اس کا محاسبہ شروع ہوا لیکن ابتدائی مرحلہ میں یہاں بھی تحقیق و تنقید کا وہ اختصاص ہاتھ نہیں آتا جس کی بنیاد پر اس کی قدر و قیمت طے کی جاسکے۔ البتہ ۱۹۶۳ء میں پہلی بار باضابطہ اسے تحقیق و تنقید کا موضوع بنایا جاتا ہے، پھر اس کے بعد چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آتی ہے۔
’صحافت: کتابیات‘ کی جمع و ترتیب سازی کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ صحافت تحقیق و تنقید کی پہلی سیڑھی مہیّا کرائی جائے جس کی روشنی میں ماضی کی قدردانی کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لئے لائحۂ عمل تیار کیا جاسکے۔ ماضی میں صحافت کی جن پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے، اس کا محاسبہ ہوسکے اور جو پہلو اب تک نظر انداز ہوتے چلے آرہے ہیں، اُس کی طرف محققین و ناقدین کی توجہ مبذول کرائی جائے۔زیرِ نظر کتابیات کوسترہ (۱۷) حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں صحافت کے موضوع پرتقریباً ۳۰۰؍مطبوعہ کتابوں کو موضوعی اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے اور یہ کتابیں جن موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، وہ ہیں:اداریہ نویسی، ادبی صحافت، اصول و فن،الیکٹرانک میڈیا، تاریخ، پابند سلاسل، تحریک آزادی، تجارت، تشدد، تصویری صحافت، تفتیشی صحافت، خبر نگاری، ذرائع ابلاغ، رپورٹنگ، رسائل و اخبارات ، زبان و بیان، صحافت اطفال، صحافی، صحافت نسواں، عالمی تناظر( بر صغیر، برطانیہ، پاکستان، مصر ہندستان)، علاقائی تناظر(آگرہ، اتر پردیش، بجنور، بنگال، بہار پنجاب،تمل ناڈو، جموں کشمیر، جنوبی ہند، حیدرآباد، دہلی،شمالی و مغربی صوبے، علی گڑھ، کرناٹک، کولکاتا، لاہور، مدراس، مدھیہ پردیش،مرادآباد، ممبئی)، فارسی صحافت، فرہنگ و اشارات، گلدستہ، مجلاتی صحافت، مذہبی صحافت، مزاحیہ صحافت، مسائل و امکانات، مطالعۂ عمومی۔
دوسرے حصے میں کتابوں میں شامل مضامین کو موضوعی اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے۔کتابوں میں جو مضامین صحافت کے موضوع پر شائع ہوئے ہیں ، ان کی تعداد اِس کتابیات میں ۷۰۹ ہے اور وہ ان موضوعات کے تحت ہیں:آزادی کے بعد اردو صحافت، آن لائن، اخلاقیات، اداریہ نویسی،ادبی تبصرہ، ادبی صحافت، اردو زبان،اشتہارات،اصول و فن، افسانے، اقتصادی مسائل، الیکٹرانک میڈیا، انٹرنیٹ، انٹرویو، ایڈیٹنگ،پروف ریڈنگ، تاریخ، تحریک آزادی، ترتیب و تدوین، ترجمہ نگاری، تصویری صحافت، تقسیم ہند، ٹریننگ، ٹکنالوجی، حکومت، حقوق انسانی، خبر رساں ایجنسیاں، خبرنگاری،خصوصیات، دہشت گردی،ذرائع ابلاغ،رپورٹنگ،رسائل و اخبارات،روزگار، زبان و معیار، زرد صحافت، سامراجیت، سائنسی صحافت، سرخیاں، سرکولیشن، سوشل میڈیا، صحافت اطفال، صحافت نسواں،صحافی، صفحہ سازی، عالمی تناظر(باہر کی بستیاں، امریکہ، بنگلہ دیش، پاکستان، جاپان، ماریشس، مغرب، ہندستان)، علاقائی تناظر(آندھرا پردیش، اترپردیش، اڑیسہ، بجنور، بنگال، بہار، بھوپال، پنجاب، تمل ناڈو، جموں و کشمیر، جنوبی ہند، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، حیدرآباد، دربھنگہ، دکن، دہلی، دیوبند، رامپور، راجستھان، سندھ، کراچی، کرناٹک، کولکاتا، گجرات، لداخ، لکھنؤ، متھلا، مدراس، مدھیہ پردیش، ممبئی، مہاراشٹر، ہریانہ)، قاری، فیچر نگاری، قومی یکجہتی، کارٹون نگاری،کالم نویسی،کتاب، مذہبی صحافت،مسائل و امکانات،معاشرہ، معیار، نامہ نگار، نوٹنکی۔
تیسرے حصہ میں رسائل و اخبارات میں شائع مضامین کو موضوعی اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے۔رسائل و اخبارات میں جو مضامین صحافت پرشائع ہوئے ہیں، ان کی تعداد اِس کتابیات میں۸۱۱ ہے اور وہ ان مضامین پر مشتمل ہیں:آزادی کے بعدصحافت،آن لائن،آئین،اخلاقیات، اداریہ نگاری، ادبی صحافت، اشتہارات، اصطلاحات، الیکٹرانک میڈیا، انٹرویو ، تاریخ، تجارت؍ کاروبار ، تحریک آزادی، ترجمہ، ترقی پسند، تصویری صحافت، ٹریننگ، ٹکنالوجی، جشن، جمہوری کردار، خبرنگاری، ذرائع ابلاغ، رپورٹنگ ،رسائل و اخبارات، رسائل: خصوصی شمارے، زبان و بیان، سائنسی صحافت، سرکولیشن، سیاست، شاعری، صحافت اطفال، صحافت نسواں، صحافت و فلم، صحافی،طباعت و اشاعت، طبی صحافت، عالمی تناظر(امریکا، ایران، برطانیہ، بنگلہ دیش، پاکستان، خلیج، ہندستان)، علاقائی تناظر(اڑیسہ، اکولہ، الہ آباد، بدایوں، بلوچستان، بمبئی، بنگال، بہار، بھوپال، پنجاب، پونچھ، تمل ناڈو، جموں و کشمیر، جنوبی ہند، حیدرآباد، دربھنگہ، دہلی، دیوبند، رامپور، راجستھان، سرحد، فرنگی محل،کولکاتا، کیرالا، گورکھپور، متھلا، مدراس، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، میسور)، عربی صحافت، فن، فیچرنگاری، قلمی صحافت، قومی کردار، قومی یکجہتی، کارٹون نگاری ، کالم نویسی،کتابت، کمیونسٹ صحافت، گلدستہ، لسانیات، مذہبی صحافت، مزاحیہ صحافت، مسائل و امکانات ، مطالعۂ عمومی ، مطبع ، ہندی صحافت۔اِس کے بعد مذکورہ بالا تینوں حصوں میں شامل کتابوں اور مضامین کو مصنف؍ مرتب؍ مضمون نگار اور عنوان کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے جن کی ترتیب ابجدی رکھی گئی ہے۔
اس کے علاوہ اردو رسائل کی فہرستیں کے تحت ۱۴؍ کتابیں، اردو رسائل کی اشاعت نَوکے ضمن میں ۹؍ رسائل کی ۲۰؍ کتابیں، اردو رسائل کے انتخابات کے ذیل میں ۲۰؍رسائل کی ۸۵ کتابیں،اردو رسائل کے صحافت نمبر کے تحت ۱۲؍ رسائل کے خصوصی نمبر،اردو رسائل کے اشاریے کے تحت ۱۳۲؍ کتابیں،کالم نگاری کے تحت ۱۵؍ کتابیں،صحافی کے تحت ۴۵۰ صحافیوں کی صحافتی خدمات پر کتابوںاور مضامین کے حوالے، یونیورسٹیوں میں صحافت پر تحقیق کے تحت ۸۰؍ تحقیقی مقالات کے اندراجات شامل کئے گئے ہیں۔
اِس کتابیات کے معرض وجود میں آنے کا بنیادی سبب ایک مثبت سوچ ہے۔ یہ مثبت سوچ رکھنے والے کوئی اور نہیں عصر حاضر کے معتبر محقق و ناقد اور کالم نگار اور بزم صدف انٹرنیشنل کے روح رواں پروفیسر صفدر امام قادری ہیں، جس کی بدولت یہ تاریخی اور عہد ساز کتابیات منظر عام آسکی۔ اس کے لئے بزم صدف انٹرنیشنل کے جملہ اراکین اس صحافت نوازی کے لئے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انھوں صحافت دو صدی جشن تقریبات کے موقع پر ایک دستاویزی کام اپنے بینر تلے انجام دیا۔