دوٹوک: قاسم سید
پندرہ ماہ کی ہولناک خونریز لڑائی یا دوسرے لفظوں میں کہیں کہ عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی پر عارضی مہلت کے بعد کئی بڑے سوال پیدا ہوئے ہیں ـ ان سوالوں کا باریک بینی اور گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ـ ان میں ایک سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے اور جنگبندی معاہدے سے کیا اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ابراہیم معاہدے کے لیے ریڈ کارپٹ تیار ہے ؟ سات اکتوبر کے حملے سے قبل ریاض اور تل ابیب پردے کے پیچھے کی ناجائز دوستی اور پرجوش اسٹریٹجک رابطوں کو قانونی شکل دینے جارہے تھے اور دستخط ہوا چاہتے تھے ـسات اکتوبر کے واقعے نے مشرق وسطی کی سیاست کا نقشہ ہی پلٹ دیا اور وہ کچھ ہوگیا جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا ،شام سے بشار الاسد کی شرمناک انداز میں رخصتی ہوگئی،حزب اللہ کمزور ہوگیا ،حماس کو ناقابل تلافی نقصان پہچا،رنگ آف فائر کی کڑیاں ٹوٹ کر حددرجہ کمزور ہوگئیں اور مڈل ایسٹ میں ایران کی تزویراتی پوزیشن کو شدید دھچکا لگا -،جس سے عرب شیوخ ہمیشہ خائف رہے اور اسی خوف نے انہیں اسرائیل کی گود میں دھکیل دیا یعنی ان کی نظر میں اسرائیل نہیں ایران بڑا دشمن ہےـ تو اب سعودی عرب کے لیے کم وبیش راوی عیش لکھتا ہے ـ اس کی راہ کے روڑے ہٹادیے گیے ہیں ـ عالم اسلام میں اس کی قیادت کو چیلنج کرنے کی حیثیت رکھنے والے ترکی اور ایران کو مختلف مسائل میں الجھا دیا گیا ہے ـ عرب عوام اپنے شاہوں کے آگے بے بس ہیں ـ جمہوریت اورانسانی حقوق کے چیمپینوں کو عرب عوام کے بنیادی حقوق کے تیئں کوئی حس نہیں ہے ،جن کی زبانیں شاہی پہروں میں ہیں اور ذرا سی آواز نکالنے پر زمین کے اوپر سے غائب کردیا جاتا ہے ،
بہرحال اس منظر نامے میں ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر بننے اور غزہ میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد دنیا کی توجہ ایک بار پھر سعودی عرب کی جانب مبذول ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ میں حائل رہا ہے۔ سعودی عرب دوریاستی حل کے حق میں ہے جو اب حماس کے لیے بھی قابل قبول ہے ـ ٹرمپ بھی سعودی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے پر زور دیتے رہے ہیں۔ اب ان کے تیور پہلے سے زیادہ سخت ہیں وہ بات نہ ماننے پرمشرق وسطی کوجہنم بنانے کی کئی مرتبہ دھمکی دے چکے ہیں ایسی صورت میں سعودی عرب کے سامنے کیا متبادل ہے؟جو عرب حکومتیں فلسطینیوں کی نسل کشی ہر منھ میں دہی جماکر دیکھتی رہیں، اپنے تحفظ کے لیے اسرائیل کی گارنٹی کی طلبگار رہی ہیں – سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو فیصلہ کرنا ہے کہ آیا فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کیا جائے یا اس کا انتظار کیا جایے اور کیا وہ انتظار کا آہشن چننے کی حیثیت میں ہیں بھی ؟۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کی اصل طاقت اس وقت ایم بی ایس یعنی محمد بن سلمان کے ہاتھ میں ہے۔
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔وہ اس بار بہت کچھ سوچے ہوئے ہیں ـ فی الوقت تو سعودی عرب یہ کہتا رہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات اسی صورت میں معمول پر آسکتے ہیں جب فلسطین کو دو ریاستی نظریہ کے تحت تسلیم کیا جائے۔ تاہم ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے ایک روز قبل اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کا اعلان سعودی عرب پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ ابراہیم معاہدے کی جانب آگے بڑھے۔ سعودی نے غزہ میں جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ساتھ ہی اسرائیلی افواج کے مکمل انخلاء پر بھی اصرار کیا ہے۔اسے عالم اسلام میں آہنی ساکھ بچانے کے لیے اس موقف پر قائم نظر آنا مجبوری ہے حقیقت یہ ہے موجدہ لڑائی میں اگر مڈل ایسٹ کے عرب ممالک کھل کر سامنے آتے چلمن کی اوٹ سے قتل عام اور نسل کشی دیکھتے رہنے کی بجائے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تو چند روز میں لڑائی کا نقشہ پلٹ جاتاـان کی کھوئی ساکھ بحال ہوتی ایران عربوں کا اتحاد مشرق وسطی کا وہ نقشہ بناتا جس میں گریٹر اسرائیل کا نقشہ دکھانے کی جرآت نہ ہوتی مگر شکست خوردہ زینت والی قومیں اپنا آنگن مضبوط کرنے کی بجائے دوسروں کے سائبان میں عافیت تلاش کرتی ہیں عرب اسی دور سے گزر رہے ہیں جس میں سعودی عرب بھی ہے – بظاہر کچھ عرصہ کے لیے رنگ آف فائر اور ایران کا "خطرہ”ٹل گیا ہے -,اور کوئی ہاتھ روکنے والا نہیں ہے
غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بات چیت بند کردی۔ غزہ میں اسرائیل کے ہولناک حملے اور شہریوں پر بمباری کی اطلاعات کے ساتھ ہی سعودی عرب کی زبان مزید سخت ہوگئی۔ واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے فراس مکہ کا خیال ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ایک قابل اعتماد اور ناقابل واپسی فلسطینی ریاست کا قیام سعودی عرب کے لیے ضروری شرط ہے موجودہ صورتحال
میں کیا وہ اپنے اس موقف پر استقامت دکھاسکے گا اور ٹرمپ کا دباؤ برداشت کر سکے گا یہ بھی اہم سوال ہے ۔ سعودی عرب ـ اسرائیل میں ابراہیم معاہدہ کرواکر تاریخ میں اپنا نام روشن کرنے کی بائیڈن کی خواہش پر تو سات اکتوبر نے پانی پھیر دیا تو کیا تاریخ نے یہ ‘سعادت’ ٹرمپ کے حصہ میں لکھ دی گئی ہے ؟ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت کے دوران 2020 میں ابراہیم معاہدے کی ثالثی کی، جس کے تحت اسرائیل نے متحدہ عرب امارات، مراکش اور بحرین کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔ اس سے سعودی عرب کے ساتھ بھی اسی طرح کے معاہدے کی امید پیدا ہوئی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنے پہلے دور حکومت میں محمد بن سلمان کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ ایسے میں ٹرمپ اس تعلقات کا فائدہ اٹھا کر اسرائیل سعودی تعلقات پر کام کر سکتے ہیں۔ٹرمپ نے حلف لینے کے بعد امید بھی ظاہر کی ہے کہ سعودی عرب بھی ابراہام معاہدے میں شامل ہوجائے گا۔ ابراہام معاہدہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کے قیام سے متعلق ہے۔ان کو یقین ہے کہ سعودی عرب بھی بالآخر ابراہام معاہدے میں شامل ہوجائے گا اور اسرائیل سے تعلقات معمول پر لے آئے گا،یہ سعودیہ پر دباؤ بڑھانے کی سمت پہلا قدم ہے اور رفوگری شروع ہوگئی ہے
سردست پڑا سوال یہ ہے کہ غزہ معاہدہ کتنا دیرپا ہوگا؟دباو میں دستخط تو ہوگیے ہیں مگر دونوں فریق بد اعتمادی کے ساتھ پھونک پھونک کر قدم رکھیں گے،ذراسی چنگاری معاہدہ کو جلاکر رکھ کردے گی -, ایک انتہا پسند وزیر بن گویر احتجاج میں نیتن یاہو کابینہ سے مستعفی ہوچکا ہے , اور نیتن یاہو لگاتار دھمکی آمیز لہجہ میں بات کررہے ہیں جیو پالیٹکس الگ کئی رنگ دکھائے گی ـسب کچھ اتنا آسان نہیں ہے کہ خادم الحرمین الشریفین ‘عشق اسرائیل میں عقل و خرد کی تمام حدیں پار کرجائیں ،اپنےاردگر چیلنجوں کے جلتے الاؤ کی تپش محسوس نہ کریں –
انہیں اسرائیل کی طرف کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار یہ سوچنا ہوگا کہ ہر قدم کے نیچے چھیالیس ہزار بے گناہوں کی لاشیں ہوں گی اور ان کی بے نور آنکھیں انصاف ما نگ رہی ہوں گی