سعودی عرب. کے خادم حرمین شریفین نے ‘جدید اسلام’ کے تعارف کی مہم میں تمام حدیں پار کردیں جس نے مسلمانوں میں غم وغصہ کہ لہر دوڑا دی ہے مگر لوگ یہ بھی حیرت کررہے ہیں ہندستان میں علمائے حق کا طبقہ اس پر مسلسل خاموشی اختیار ئ کئے ہوئے ہیے
رازی ترین اطلاع کے مطابق دارالحکومت ریاض میں منعقدہ ریاض سیزن فیسٹیول کی افتتاحی تقریب اس وقت ایک بڑے تنازع کا شکار ہے۔ اس تنازع کی وجہ اسٹیج پر نصب اسکرین تھی۔ اس پروگرام کی جو ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں ان میں مبینہ طور پر اسٹیج پر موجود اسکرین کی شکل خانہ کعبہ جیسی ہے۔ اس کے اردگرد فنکاروں کے رقص اور موسیقی کو مقدس مقامات کی بے حرمتی کے طور پر دیکھا گیا۔ یہ واقعہ ایک ایسے ملک میں پیش آیا ہے جو اسلامی تاریخ اور مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے معروف ہے۔
اس پر مزید تنازع تب ہوا جب اس اسٹیج پر فنکار رقص کرتے موسیقی کی دھنوں پر پرفارم کر رہے تھے۔ کئی افراد نے اس منظر کو خانہ کعبہ کے طواف کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے اسے مقدس مقام کی توہین قرار دیا
واضح رہے کہ خانہ کعبہ نہ صرف مسلمانوں کا قبلہ ہے بلکہ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں ایک خاص تقدس رکھتا ہے۔ خانہ کعبہ کے گرد طواف ایک مذہبی فریضہ ہے جو صرف اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے۔ ایسے میں کسی تفریحی پروگرام میں خانہ کعبہ سے مشابہت رکھنے والے ماڈل کا استعمال اور اس کے اردگرد رقص کو نہ صرف اسلامی شعائر کی خلاف ورزی سمجھا جا رہا ہے بلکہ یہ لاکھوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ایکس پر گردش ویڈیو بہت شرمناک ہے ان ویڈیوز کے عام ہوتے ہی سوشل میڈیا پر غم و غصہ کی لہر پھیل گئی
دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس واقعے پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔ ایک صارف نے لکھا:“سعودی حکومت نے ایسا کر کے اسلام کی توہین کی ہے۔”ایک اور صارف نے کہا:“کیا سعودی عرب میں اب بھی علماء موجود ہیں؟ کیا وہاں اب بھی صرف مسلمان رہتے ہیں؟”
کئی افراد نے سعودی حکومت اور ولی عہد محمد بن سلمان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسلام کی بنیادی اقدار سے انحراف کی ایک اور کوشش ہے
سعودی حکومت نے اس تنازع پر فی الحال کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا۔ تاہم، عوام کی ناراضگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ کئی افراد نے کہا کہ یہ واقعہ ایک ایسا دھچکا ہے جو اسلامی دنیا کی قیادت کے دعویدار ملک کے لیے ناقابل قبول ہے۔اسب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندستان کے جید علما سعودی عرب کی ان خلاف شرع حرکتوں ہر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور آج تک کسی نے کوئی بیان تک جاری نہیں کیا احتجاج تو بہت دور کی بات ہے عوام کا کہنا ہے کہ آخر ان کی مجبوری کیا ہے جو ایسے معاملات پر بولنے سے روکتی ہے اسلامی معاشرہ علماء کی رہنمائی میں پروان چڑھتا ہے۔ علماء نہ صرف مذہبی معاملات میں رہنمائی کرتے ہیں بلکہ وہ ایسے مواقع پر اپنی آواز بلند کرتے ہیں جہاں مذہب اور ثقافت کو خطرہ لاحق ہو خاموش نہیں رہتے ،حتی کہ حماس کو برابھلا کہنے والا طبقہ بھی دم سادھے ہوئے ہےـ۔ اس تنازع نے سعودی علما کے ساتھ ہندستانی علماء کہ خاموشی پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔اس وقت دنیا بھر کے مسلمانوں میں ناراضگی کی لہرہے ـ
یہ تنازع صرف سعودی عرب تک محدود نہیں رہا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے اثرات محسوس کیے گئے ہیں۔ کئی ممالک کے مسلمانوں نے سعودی حکومت سے اس واقعے پر معافی مانگنے اور مستقبل میں ایسے اقدامات سے باز رہنے کا مطالبہ کیا ہے۔ریاض سیزن فیسٹیول کا تنازع اسلامی دنیا کے لیے ایک سبق ہے۔ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ ترقی اور جدیدیت کے راستے پر چلتے ہوئے اسلامی اقدار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ۔ دوسری طرف فلسطینیوں کا قتل عام ہورہا ہے وہ بھی عرب ہیں لبنان میں رہنے والے بھی مسلمان ہیں وہاں دن رات بمباری ہورہی ہے واہ خادمین حرمین شریفین واہ