علی گڑھ (سالم فاروق ندوی) ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ میں ”عدل و قسط کا تصور اور تقاضے“ کے مرکزی عنوان پر اسکالر سیمنار کا انعقاد کیا گیا ، جس کی صدارت سکریٹری ادارہ مولانا اشہد رفیق ندوی صاحب نے کی۔ سمینار کا موضوع جماعت اسلامی ہند کے اجتماع ارکان، حیدرآباد کے مرکزی عنوان "عدل و قسط” کو سامنے رکھتے ہوئے طے پایا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اقامت دین کے وسیع تصور کے ساتھ عدل و قسط کا تصور بھی ذہنوں میں راسخ ہوجائے اور زندگی کے مختلف میدانوں میں اس کا عملی اظہار ہو۔ اس مرکزی عنوان کے تحت کل پانچ مقالے پیش ہوئے۔ سفیان سی عمری نے "عدل و قسط کا وسیع مفہوم : قرآن و سنت کی روشنی میں” کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا اور کہا کہ عدل و قسط زندگی کے تمام شعبوں میں مطلوب ہے؛ انفرادی زندگی سے لے کر اجتماع زندگی تک، معاملات سے معاشرت تک۔ ان تمام پہلوؤں میں عدل و قسط کا قیام ضروری ہے۔ حامد قریشی نے "عدل وقسط کے قیام کی اہمیت : نوع انسانی کے مفاد میں” کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ عدل و قسط کا قیام مقاصد شریعت کا اہم باب ہے۔ ساجد ندوی نے "انفرادی زندگی میں عدل وقسط کا نفاذ : فوری اور فطری ضرورت” کے تحت مقالہ پیش کیا اوردلائل کی روشنی میں کہا عدل کا آغاز اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ اس کی مختلف جہات ہیں، جیسے خواہشات میں عدل، جذبات میں عدل وغیرہ۔ مجیب الرحمٰن فلاحی نے "عدل کا قیام کیسے ہو ؟” کے تحت مختلف نظریات پر بات کی اور عملی شکلوں پر گفتگو کی۔ انعام الحق قاسمی نے عدم قسط سے پیدا ہونے والی برائیوں کو بیان کیا اور ظلم و استبداد پر اسلام کے موقف کا جائزہ پیش کیا۔
اس موقع پر ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کے سینئر رفقاء علمی نے اپنے تاثرات پیش کیے اور اسکالرز کی کوششوں کو خوب خوب سراہا۔ مولانا کمال اختر قاسمی صاحب نے مقالہ نگاری کی بعض اہم چیزوں کی طرف نشاندہی کی اور موضوع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ عدل و قسط کا مضمون پورے قرآ ن میں سب سے زیادہ ابھر اہوا ہے۔ اس حوالے سےموجودہ حالات کے تناظر میں جہاں قوانین و ضوابط کا ایک مضبوط ڈھانچہ ہے، وہاں قیامِ عدل و قسط کے امکانات اور اس کے طریقہ کار کیا ہوسکتے ہیں؟ اس پر بھی تحقیق کی ضرورت ہے۔ مولانا محمد جرجیس کریمی صاحب نے عدل کے وسیع مفہوم پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کو اپنی ذات میں بھی عدل قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا اشہد رفیق ندوی نے صدارتی خطاب میں مقالہ نگاری کے اصولوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مقالے کا مواد جاندار، اسلوب واضح، اور پیشکش عمدہ ہونی چاہیے۔ ایک اچھا مقالہ نگار موضوع کے دائرے میں رہتے ہوئے تمام پہلوؤں کا غیرجانب دارانہ احاطہ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوآموز قلم کار عموماً تجزیاتی گفتگو میں غلطی کرتے ہیں، جس سے بچنے کے لیے موضوع کی تفہیم اور ماہرین کی آراء کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ صلاحیت محنت اور تجربے سے حاصل ہوتی ہے۔ خطاب کے بعد انعامات کا اعلان ہوا، جس میں سفیان سی عمری، حامد قریشی، اور انعام الحق قاسمی نے بالترتیب اول، دوم، اور سوم پوزیشن حاصل کی۔ نظامت انعام الحق قاسمی نے کی۔