تحریر: کلیم الحفیظ ،نئی دہلی
آزادبھارت کی تاریخ میں فسادات کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی آزادی کی،ملک کی آزادی کی شروعات ہی مذہبی و فرقہ وارانہ فسادات اور سنگین قتل عام سے ہوئی تھی۔اس دن سے آج تک تقریبا ستر ہزار چھوٹے بڑے فسادات اہل ملک نے جھیلے ہیں۔البتہ گزشتہ دو دہائیوں سے ان فسادات میں بعض تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔سب سے بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ فساد ات کرانے والے ہی ملک کے حکمران بن بیٹھے ،اس ضمن میں 2002کے گجرات فسادات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔اک طرح سے اس فساد کو ریاستی دہشت گردی کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔ورنہ اس سے پہلے فسادیوں کا تعلق عام طور پر اپوزیشن جماعتوں سے ہوا کرتا تھا ،یا کم سے کم حکومتیں ان فسادات کی سرپرستی نہیں کرتی تھیں۔لیکن گجرات فساد کے بعد منظر نامہ تبدیل ہوگیا۔باقاعدہ حکمرانوں کی جانب سے وہ زبان بولی جانے لگی جو فسادیوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنی،ملک کے وزیر داخلہ ہوں یا کسی ریاست وزیر اعلیٰ،ان کے بیانات آپ سنیں گے تو حیرت میں پڑجائیں گے ،آپ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ یہ لوگ کسی جمہوری ملک کے سربراہ ہیں یا کسی فرقہ پرست تنظیم کے آلہ کار۔صرف بیانات پر اکتفا نہیں ہوا بلکہ فسادات میں نمایاں رول ادا کرنے والوں کو باقاعدہ اعزازات سے نوازا گیا۔ان کو وزارتیں پیش کی گئیں۔اگر موجودہ حکومت نے دکھاوے کے لیے ان پر مقدمات قائم بھی کردیے تو اپنی حکومت بننے پر سب سے پہلا کام یہی کیا گیا کہ ان پر سے مقدمات واپس لے لیے گئے۔
فسادات کے پیچھے جو نیت اور ذہنیت کارفرما رہی ہے وہ بھی موجودہ دور میں بدل گئی ہے۔کانگریس کے دور حکومت میں جو فسادات ہوئے ان میں زیادہ تر سیاسی فسادات تھے،الیکشن جیتنے کے لیے الیکشن سے پہلے اورہارنے کی کھسیاہٹ میں کوئی نیتا فساد کروادیتا تھا،کسی لڑکی کو لے کر دو گروہ آپس میں لڑجاتے تھے،کسی جانور کا گوشت عبادت گاہوں میں پھینک دیا جاتا تھا اور دنگا ہوجاتا تھا،مسلمان ہولی کا رنگ کسی مسلمان کے اوپر ڈال دینے سے ناراض ہوجاتے تھے ،فسادیوں کا مقصد صرف مال لوٹنا تھا،کسی مذہب کا بول بالامقصد نہیں تھا۔ان میں کھلے عام مسلمانوں کے مذہبی شعائر کو گالیاں نہیں دی جاتی تھیں۔بلکہ مسلمانوں کو معاشی طور پر نقصان زیادہ پہنچایا جاتا تھا۔بازاروں اور کارخانوں میں آگ لگائی جاتی تھی ،درگاہیں اور مسجدیں کسی حد تک محفوظ تھیں،حضور اکرم ؐ کی شان میں گستاخانہ الفاظ کا استعمال نہیں ہوتا تھا البتہ پاکستان کے نام پر طعنے ضرور دیے جاتے تھے۔گجرات فساد میں سب سے زیادہ عبادت گاہوں کو نقصان پہنچا ۔اس کے بعد ہونے والے فسادات میں مذہبی شدت پسندی دیکھنے کو ملتی ہے۔اسلام کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے ۔رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے،داڑھیاں نوچی جاتی ہیں۔ابھی تری پورہ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھی گئی جس میں ہندو شدت پسندوں کی ریلی میں کچھ اس طرح کے نعرے لگائے جارہے تھے،جس میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے نازیبا اور گستاخانہ الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔اس سے پہلے دہلی و ہریانہ میں ہندو سیناوغیرہ کے لیڈران کی زبان سے اس سے ملتے جلتے نعرے سننے کو ملے تھے۔تین ماہ پہلے جنتر منتر دہلی پرکھلے عام مسلمانوں کو دھمکایا جارہا تھا۔یہی نہیں موجودہ دور میں ان فسادیوں کو ہندو پنڈتوں کی رہنمائی بھی حاصل ہے۔اترپردیش کے ڈاسنا مندر کے پجاری نرسنگھ آنند کی بدتمیزیاں آج تک جاری ہیں ۔اس طرح آج مسلمانوں کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی جان ،اپنے مال اور عزت و آبرو کو بچائیں یا اپنے دین و ایمان کی حفاظت کریں۔
جب کسی حکومت کی طرف سے ملک کے کسی خاص طبقے کو نشانہ بنایا جانے لگے تو آپ اس حکومت سے کسی خیر کی توقع نہیں کرسکتے۔ویسے تو آزادی کے بعد کانگریس کے دور حکومت میں ہونے والے فسادات کی تحقیقاتی رپورٹیں بھی صرف دیمک کی خوراک بن کر رہ گئیں،کسی بھی فساد میں مجرموں کو قرار واقعی سزا نہیں ملی،اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنے کو نہیں ملتا۔ لیکن موجودہ حکومت تو خود ہی یہ چاہتی ہے کہ بھارت کے مسلماندوسرے درجے کے شہری بن کر رہیں،اپنی حیثیت بھول کر غلامی قبول کرلیںیا پھر ان کی گھر واپسی کرائی جائے۔ایسی حکومت سے آپ اگر یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ فسادیوں کو سزا دے گی تو دن میں تارے دیکھنے کے مترادف ہے۔اس لیے ان فسادات کا حل خود آپ کو ہی نکالنا ہوگا۔لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ فسادیوں کے خلاف قانونی لڑائی نہ لڑیں ،ابھی بھارت کے آئین پر ہمارا مکمل اعتماد ہے اس لیے قانونی جنگ جاری رہنی چاہئے ۔
میرا ایمان ہے کہ مسلمانوں سے پاک بھارت کا فرقہ پرستوں کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔امت مسلمہ اس روئے زمین پر خدا کے پیغام کی امین امت ہے ،یہ ہمیشہ رہے گی،نبی اکرم ؐ آخری رسول ہیں ،ان کے خلاف پچھلے پندرہ سو سال سے گستاخیاں کی جارہی ہیں مگر رحمۃ اللعٰلمین کے پرستاروں میں ہمیشہ اضافہ ہورہا ہے ،قرآن پاک خدا کا آخری پیغام ہے ڈیڑھ ہزار سال سے ایک لفظ مٹانا تو دور تبدیل بھی نہیں کیا جاسکا ،اس کا محافظ خود خدا ہے ۔لیکن اس ایمان کے ساتھ میرا یہ بھی ایمان ہے کہ کسی فرد یا قوم کی حالت اسی وقت بدل سکتی ہے جب وہ فرد یا قوم خود اپنی حالت بدلنے کے لیے تیار ہو،اس کی منصوبہ بندی کرے،اس پر عمل کرے ،اس قوم کا ہر فرد اپنا کردار ادا کرے،اگر زمین پرکوئی قوم خود اپنی حالت بدلنے پر تیار ہوتی ہے تو آسمان والا اس کی مدد ضرور کرتا ہے۔اگر ہزاروں سال سے مظلوم دلت مسلمانوں سے بہتر ہوسکتے ہیں،اگر ملک کے 1.72فیصد سکھ باعزت زندگی گزار سکتے ہیں تو ایک طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی 15 فیصد قوم اپنا وقاربحال کیوں نہیں کرسکتی؟
کچھ لوگوں کے نزدیک ان فسادات کا حل انتقام ہے ،جیسا کہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے،کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کچھ ہوگا تو اس کا اثر بنگلہ دیش کے ہندو بھائیوں پر بھی پڑے گا،کچھ ناعاقبت اندیش سمجھتے ہیں کہ کہیں کا بدلہ کہیں لے کر یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے ،جبکہ انتقام کا کوئی بھی جذبہ خود کشی کے مترادف ہے۔آپ ہندوستان کا بدلہ بنگلہ دیش میں یا تری پورہ کا بدلہ بنگال میں نہیں لے سکتے ،ایسی سوچ اور فکر اخلاقی پستی کی انتہا ہے۔بے گناہوں کو مار کر گناہ گاروں کو سزا نہیں دی جاسکتی اور اسلام تو اس سلسلے میں بہت سخت ہدایات دیتا ہے ۔میرے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ ہم خود کو ملک اور سماج کے لیے مفید بنائیں،اپنی تعلیمی پسماندگی خاص طور پر خواتین کی تعلیمی پسماندگی پر جلد از جلد قابو پائیں،اپنے کاروبارکو آپسی تعاون سے فروغ دے کر معاشی خوش حالی لائیں،برادران وطن کو اسلام کی تعلیمات سے خاص کر حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ سے واقف کرائیں،اور اپنا انتقام کسی کی جان لے کر نہیں بلکہ اس کا ووٹ لے کر لیں ،ووٹ لینے کے لیے آپ کو اپنی پارٹی کی حمایت کرنا ہی ہوگی ۔جس دن آپ ووٹ دینے والوں کی صف سے نکل کرووٹ مانگنے والوں کی صف میں شامل ہوجائیں گے تو آپ حکومت میں حصے دار بن جائیں گے اور آپ کی حصے داری زمین کو فساد سے پاک کردے گی۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)