تحریر: محمد شعیب ندوی
ان دنوں مسلمان ایک عجیب طرح کے تذبذب عدم تحفظ ذلت و ادبار قلق و بے چینی کے احساس میں مبتلا ہے، الیکشن کی قربت کی وجہ سے ہر مسلمان لیڈر اپنے آقا کی جی حضوری و خوشامد میں لگا ہوا ہے۔
مسلمانوں کو لا تعداد و بھیانک خطرات کی آگاہی سے واقف کرایا جا رہا ہے ان کے مستقبل کو مزید تاریک بنانے کے لیے ہر پارٹی جتن کر رہی ہے، بظاہر ان سے اچھے اچھے وعدے کر کر و خوشنما خواب دیکھا کر ان کو مائل کرنے کی جہد مسلسل جاری و ساری ہے، ستم بالائے ستم مسلمان بھی اسی میں خوب مخمور و مسرور ہے۔
خیر یہ رویہ تو مسلمانوں کے ساتھ عرصہ دراز سے اپنایا جا رہا ہے اس کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں کے پاس اقدامات کرنے کا سامان مہیا نہیں ہے ،جس کی وجہ سے دفاعی طور پر اکا استحصال کیا جاتا ہے۔
ہمارا قومی جوش جس قدر اپنی خوفناک شدت کے لئے دنیا میں مشہور ہے اسی قدر سرعت فنا میں زبان زد خلایق ہے، ہمارا مجموعہ سیاست کیا ہے؟ ایک طومار خرافات، ہمارا میدان عمل کیا ہے؟ ایک بازیچہ اطفال، ہماری متفقہ آواز کیا ہے؟ ایک قہقہہ انگیز تمسخر، ہمارے رہنما سیاست کو تسخیر عوام کا چلتا ہوا جادو، عزت حاصل کرنے کا نسخہ، سونے چاندی کا مینھ برسانے والا پیشہ سمجھ کر اختیار کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا رعب و اثر اقوام عالم کے دلوں سے بلکل آٹھ گیا ہے اور ہم مسلسل پسماندگی و ادبار اور قعر مذلت میں گرتے جا رہے ہیں۔
تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی غلطی بتدریج اپنے کو سیاست سے علیحدہ کرنا تھا، چنانچہ جمعیۃ علماء ہند کے اس علیحدگی کے اعلان سے قوم ایک تشویش میں مبتلا ہوگئ حوادث زمانہ کے ساتھ یہ تمام اسباب تو تھے ہی لیکن اہم و قابل توجہ عوارض میں سے خواتین اسلام کی ناخواندگی اور تعلیم دے کر سیاست سے بے تعلق رکھنا تھا، قومی ماؤں کی سیاست سے ناواقفیت کے سبب افراد قوم میں بھی صحیح سیاسی مذاق اور سچا جوش مفقود ہے اور کیوں نہ ہو. انہوں نے ولادت، طفولیت، ابتدائی تعلیم ان تمام مراحل کو طے کرنے کے بعد اسلامی حمیت کا نام اس وقت سنا جب مولوی صاحب نے قرآن و حدیث کے معارف و بصائر سے آگاہ کیا، حب وطن اور قومی جوش کی خوبیاں انہوں نے پہلے مدرسہ (آغوش مادری) میں نہیں سنیں۔
بہرحال ہمارا خیال و عقیدہ ہے اور سائنس بھی اس کی معترف ہے کہ مادر رحم و مادر آغوش میں ماں کے اثرات بچہ پر پڑتے ہیں اسی لئے فاتح کی ماں بہادر، مصلح کی جدت طرازاور ولی کی فنا فی اللہ ہوتی ہے اس علاوہ اکتسابی امور سے ان میں مزید مضبوطی و پختگی پیدا ہوتی ہے۔
اسی لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے عائلی زندگی میں صحیح سیاسی شعور و ذوق پیدا کریں ان کو اصول سیاست سے واقف کرائیں ،حب وطن و قومی جوش کو صحیح سمت میں لائیں۔
اگر خواتین اسلام آج سیاست شناس ہوتیں تو قوم کا نظام ترکیبی سست عمل اور غلط رو عناصر کی جگہ ایسے کارآمد اجزا سے مرکب ہوتا جن کی رگ و پے میں خون کے ساتھ حمیت جاری و ساری ہوتی _حب وطن گھٹی میں پڑی ہوتی ترقی کا راگ اولین صدائے ہستی بن کر کانوں کی راہ دلوں میں اترا ہوتا – ضروریات قوم زندگی کا پہلا سبق بن کر ہمیشہ کے لیے ذہن نشین ہوچکی ہوتیں – صداقت، بے غرض، پابندی اصول، أصابت رائے، استواری عزم، غرض وہ تمام خوبیاں جو ایک قوم کے اجزائے اخلاق ہوتی ہیں خود بخود ان میں پیدا ہوجاتیں۔
بس ضرورت اس پہلو پر توجہ دینے اور اس کو زیادہ سےفروغ دینے کی ہے تبھی ہماری ترقی و کامیابی ممکن ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)