تحریر : مسعود جاوید
کسی بھی شخص گروہ طبقہ فرقہ کے خلاف ظلم و زیادتی سے متاثر ہونا انسانی فطرت ہے۔ اس ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنا،مظلوموں کو تحفظ فراہم کرانے اور ظالموں کو نظام و قانون کے تحت کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے حکمرانوں سے مطالبہ کرنا اپنی تحریر و تقریر سے ردعمل کا اظہار کرنا مہذب دنیا کی سول سوسائٹی کا اخلاقی فریضہ ہے۔
یہ اس دور کا المیہ ہے کہ سول سوسائٹی کے انصاف پسند افراد اور ذمہ دار شہری خواتین وحضرات ، انسانی حقوق کے تنظیموں کے ارکان، سیاسی پارٹیوں کے سربراہان اور میڈیا بعض اوقات بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ظلم وزیادتی کے خلاف زبان کھولنے سے گریز کرتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ give and take کے اس خالص مادی دنیا میں ، جہاں آئیڈیالوجی ، اخلاقیات اور انسانی اقدار طاق پر رکھ دئے گئے ہوں ، کوئی کسی کے ساتھ بغیر مفاد کیوں کھڑا ہوگا۔خاص طور پر سیاسی سطح پر2014کے بعد کے ایسے ماحول میں جس میں کسی ذات برادری فرقہ اور طبقہ کا ووٹ نفع نقصان کی بنیاد قرار پایا ہو۔
بی جے پی نے یہ تجربہ کر کے دیکھ لیا کہ مسلمانوں کے ووٹ کے بغیر بھی وہ واضح اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔
دوسری نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے بھی پچھلے انتخابات کے دوران ایک تجربہ کیا اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو بے وقعت کرنے کے باوجود مسلم ووٹ ان کو ملتے ہیں اس لئے کہ بی جے پی مخالف مسلمانوں کے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے۔ ان کی معراج بس یہ ہے کہ کوئی پارٹی یا پارٹیوں کا اتحاد بی جے پی کو شکست دے۔ مسلمانوں کی یہی وہ کمزوری ہے جس کا فائدہ سیکولر پارٹیاں اٹھا رہی ہیں۔
جب مسلمانوں کے مطمح نظر فرقہ وارانہ فسادات، مسلمانوں کی شرح آبادی سے بہت زیادہ جیلوں میں ان کی تعداد، تعلیمی اور معاشی پسماندگی سے نجات نہیں ہے تو پھر سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے یہ مسائل اپنے انتخابی منشور میں کیوں شامل کریں گی۔ مسلم ووٹ جب بغیر کچھ کئے ان کی جھولی میں ہے تو کیوں خواہ مخواہ مسلمانوں کے مسائل پر کچھ بول کر ، ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر کے اور انتخابی وعدے کر کے اکثریتی فرقہ کے لوگوں کو ناراض کیا جائے!
کسی کے خلاف ظلم و زیادتی سے متاثر ہونا اگر انسانی فطرت ہے تو غیر تو کسی دباؤ میں ممکن ہے زبان نہیں کھولتے ہیں لیکن ہمارے اپنے لوگ؛ ملی و سیاسی قائدین، صحافی ، ادیب، شاعر، نقاد، مصنف، مؤلف، پروفیسر، ڈاکٹر جسٹس اور وکیل حضرات بھی تو عموماً اپنے ردعمل کا اظہار کرنے سے کیوں گریزاں ہیں !
جہاں تک سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کی خاموشی کا تعلق ہے اس کی کئی وجوہات ہیں۔
1- ٹرولنگ :
دو روز قبل کانگریس رہنما راہل گاندھی نے تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و زیادتی اور انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کے خلاف احتجاجی ٹویٹ کیا ۔ بس کیا تھا دو روپے فی ٹرول والی سینا نے راہل گاندھی کو ٹرول کرنا شروع کر دیا۔ اور اپنی جہالت کا مظاہرہ کرنے لگے کہ راہل کے والد فیروز گاندھی (پارسی )نہیں فیروز خان مسلم تھے وغیرہ وغیرہ۔
یہ روش آج کی نہیں ہے ۔2014 کی انتخابی مہم کے وقت سے ہی کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کو ’ مسلم منہ بھرائی‘ کے طعنے اس قدر دئے گئے کہ آئیڈیالوجی کی بنیاد پر نہیں وقتی مفادات کے خاطر کانگریس سے وابستہ لیڈروں نے چوٹی کے سربراہوں کو convince قائل کیا مسلمانوں کے مسائل اٹھانے کی وجہ سے اکثریتی طبقے کا ووٹ کانگریس سے دور ہو رہا ہے۔ ( ماضی قریب میں آنجہانی راجیو گاندھی کو بھی یہی یقین دہانی کرائی گئی تھی جس کے تحت انہوں نے اقلیت خوشنودی چھوڑ اکثریت خوشنودی کا طریقہ اپنایا تھا) 2014کی انتخابی مہم میں سب سے پہلے سیکولرازم کو نشانہ بنایا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ سیکولر دراصل سکsick یعنی مریض نظریہ ہے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اس کے اقلیت یعنی مسلم خوشنودی کو نشانہ بنایا گیا کہ کانگریس اکثریتی فرقہ کے حساب پر اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے کام کرتی ہے۔ یہ بیانیہ اتنی شد و مد سے چلایا گیا کہ عام لوگ اس پر یقین کرنے لگے۔
مسلم خوشنودی کا بیانیہ عام کرنے میں معاون ہمارے روایتی مسلم نیتاگن بھی رہے۔ وہ پارٹی کے بڑے رہنماؤں سے مسلمانوں کے حقیقی مسائل کے حل کی بجائے علامتی خوشنودی سے مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کا کام کیا۔ پارٹی سربراہان کی مساجد و مدارس کی زیارت دینی قیادت سے ملاقاتیں، مزارات کی چادر پوشی اور گدی نشینوں کو عطیات. … ہر ممبر پارلیمنٹ کے حلقہ انتخاب کی تعمیر و ترقی کے لئے حکومت نے فنڈ مختص کر رکھا ہے اس فنڈ سے اگر سڑک سیوریج بجلی پانی کمیونٹی ہال اور دیگر رفاہی کام ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ مسلم غیر مسلم سب کو پہنچتا ہے۔ ایسے کاموں کو ممبر پارلیمنٹ کا یا ممبر اسمبلی کا مسلمانوں پر خصوصی توجہ یا احسان بتا کر کیش کرانے میں مقامی لیڈروں کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔ اس قبیل کے ترقیاتی کام معمول کے مطابق ہر علاقے میں جہاں ضرورت ہوتی ہے، وہاں ہوتا ہے۔ لیکن مسلم علاقوں میں اس کے لئے ایسی تاج پوشی ہوتی ہے کہ اکثریتی فرقہ کے لوگ اسے مسلم منہ بھرائی سے تعبیر کرنے لگتے ہیں۔