تحریر: محمد قمرالزماں ندوی
سر سید احمد خاں مرحوم علی گڑھ کالج کے تعاون لیے ( بعد میں جو دنیا کی ایک عظیم یونیورسٹی بنی اور جس نے قوم و ملت کو بہت ہی فائدہ پہنچایا، اور پہنچا رہا ہے، اورجس کے احسان کو مسلمان اور برادران وطن بھی کبھی فراموش نہیں کرسکتے) ایک موقع پر ایک صاحب خیر کے پاس گئے کہ وہ اس کالج اور دانش گاہ کے لیے مالی تعاون کریں، اس کے لیے اس کے سامنے دست سوال دراز کیا، وہ شخص علماء اور اہل علم کی صحبت میں رہتا تھا،اس لئے سرسید احمد خان مرحوم کے تعلیمی اور فکری نظریہ سے اختلاف رکھتا تھا اور ان سے متنفر تھا، اس نے سر سید مرحوم کے ہاتھ پر تھوک دیا، سرسید مرحوم نہ طیش میں آئے اور نہ غصہ ہوئے، بلکہ قوم و ملت کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنے جذبات پر قابو رکھا اور بہت شگفتگی کے ساتھ کہا کہ آپ نے اپنا کام تو کر لیا،اب میرا بھی کام کردیجئے، وہ شخص سرسید مرحوم کے اس جواب، رد عمل اور طرز سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر ایک خطیر رقم سےسرسید احمد خان مرحوم کا تعاون کیا ، اور اسے یہ یقین ہوگیا کہ یہ شخص قوم ملت کے لیے مخلص ہے اور صاحب بصیرت بھی ہے، نیز قوم کا ہمدرد اور بہی خواہ ہے۔
دوستو!!!!!
اس واقعہ سے پتہ چلا کہ اخلاص اور بصیرت انسان کے لیے بہت ہی ضروری ہے، اس بغیر دینی اور دنیاوی کامیابی ممکن نہیں ہے۔
غرض ایک کامل مومن اور سچے پکے مسلمان کی دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لئے اخلاص اور بصیرت دونوں ضروری اور لازمی (اوصاف) ہیں ۔ اگر انسان ان دونوں یا ان میں سے ایک وصف سے بھی خالی اور عاری ہے، تو اس کے لئے دنیاوی اور اخروی کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل اور دشوار ہے ۔ اخلاص اور بصیرت کی ضرورت انفرادی زندگی میں بھی ہے اور اجتماعی زندگی میں بھی، بلکہ انفرادی زندگی کے مقابلے میں اجتماعی زندگی کے لئے تو یہ دونوں اور بھی ناگزیر ہیں ۔ زندگی کے ہر شعبے اور گوشے میں اخلاص اور بصیرت کی ضرورت ہے ۔ دین اسلام اور شریعت حقہ میں اخلاص اور بصیرت دونوں کی اہمیت ہے،قرآن مجید میں اخلاص کا معیار ابتغاء رضوان اللہ بتایا گیا ہے، یعنی ہر حال میں اور تمام موقع پر صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے کام کرنا ،کسی اور کا غرض اور مقصد اس میں شامل اور داخل نہ ہو ۔ بعض اہل علم نے اخلاص کی تعریف یوں کی ہے : قلب کو تمام آمیزشوں اور آلائشوں ،خواہ کم ہو زیادہ اس سے پاک کرنے کا نام اخلاص ہے ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی کے تقرب کے قصد کے علاوہ کوئی اور باعث نہ رہ جائے ۔ کسی نے اخلاص کی تعریف بایں طور کی ہے کہ بندہ کا خالق کی طرف دوام نظر کرکے مخلوق کی طرف نظر اٹھانے کو بھول جانا اخلاص ہے ۔
اور جہاں تک بصیرت کی تعریف اور ڈیفنشن ہے تو وہ یہ ہے کہ آدمی حالات زمانہ سے واقف ہو ،جیسا کہ حدیث میں آیا ہے : ان یکون بصیرا بزمانه یعنی مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر زمانی بصیرت و فراست پیدا کرے ۔ بصیرت یہ ہے کہ آدمی نتیجہ خیز میدان میں اپنی کوشش اور محنت صرف کرے اور اس کے برعکس بے بصیرتی یہ ہے کہ وہ ایسے میدان میں کود جائے اور چھلانگ لگا دے، جس میدان کے اونچ نیچ اور نشیب و فراز سے وہ واقف نہ ہو ۔ اور جس میدان میں کوئی مثبت، مفید، کار آمد اور اطمنان بخش نتیجہ نکلنے والا ہی نہ ہو ۔
اخلاص اور بصیرت باہم ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں یہ دونوں باہم لازم و ملزوم ہیں ۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے اگر معاملہ صرف آدمی کی اپنی ذات سے ہو ،تو اقدام کے لئے صرف اخلاص کافی ہوسکتا ہے ۔ لیکن اگر معاملے کا تعلق اجتماعیت اور اجتماعی احوال و کوائف سے ہو ،تو اخلاص کے ساتھ بصیرت بھی لازمی طور پر ضروری ہے ۔ اس کی حقیقت اور گہرائی ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ایک آدمی اگر کامل و مکمل اخلاص کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کسی شخص سے کردے اور وہ ناکام ہوجائے ،تو اس کا نقصان آدمی کو خود اٹھانا پرتا ہے ۔ اس قسم کی غلطی سے کوئی عمومی فساد واقع نہیں ہوتا ۔ ایسا آدمی قابل معافی قرار پائے گا، اس کو قابل سزا قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
لیکن ایک ملی رہنما ،قائد اور داعی و مبلغ کے لئے یہ معیار کافی اور مکمل نہیں ۔ کوئی رہنما اور قائد جب کوئی تحریک چلاتا ہے، کسی قافلے کی حدی خوانی کرتا ہے، کسی کارواں کا وہ میر کارواں اور روح رواں ہوتا ہے، اور وہ جب کوئی عملی اقدام کرتا ہے، تو اس کا تعلق اور رشتہ ہزاروں لاکھوں بلکہ بسا اوقات کروڑوں انسانوں سے ہوتا ہے ۔ اگر اس کی تحریک درست نہ ہو ،یا اس کا اقدام ایک غلط اقدام ہو تو ایسی صورت میں اس کی غلط تحریک، یا اس کے غلط اقدام و پیش قدمی کا نقصان پوری امت اور نسل کو بھگتنا پڑ تا ہے ۔ اس لئے جو شخص اجتماعی قیادت کے میدان میں داخل ہو، اس کے لئے اور قافلہ کی سالاری کے لئے صرف اخلاص کافی نہیں ہے، اس کے لئے لازم و ضروری ہے کہ وہ بصیرت زمانہ کا حامل ہو۔ اگر وہ بصیرت زمانہ کا حامل نہیں ہے، تو اس کے لئے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ وہ اس طرح کا اقدام خدا کے واسطے نہ کرے۔ اس کی بے عملی کا کم سے کم فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ اس کی غلط تحریک اور اقدام کے ضرر اور نقصانات سے بچ جائیں گے ۔ اگر آپ اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے ،تو کم از کم ان کو اپنے ضرر و نقصان سے ضرور بچائیے ۔ دوسروں کو اپنے نقصان سے بچانا بھی ایک کام بلکہ ایک طرح کی نیکی اور صدقہ ہے ۔ اسی عظیم حکمت کو حدیث شریف میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : ان لم تنفعه فلا تضره
اجتماعی اور دعوتی کاموں کاموں میں تو بصیرت و فراست اور حکمت کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے اسی لئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں خاص طور پر اس جانب اشارہ کیا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :قل ھذہ سبیلی ادعو الی اللہ علی بصیرة انا ومن اتبعنی و سبحان اللہ وما انا من المشرکین کہہ دے یہ میری راہ ہے بلاتا ہوں اللہ کی طرف، سمجھ بوجھ کر میں اور جو میرے ساتھ ہے،اور اللہ پاک ہے اور میں نہیں شریک بنانے والوں میں ۔
قارئین محترم! آج جب کہ حق اور ناحق میں امتیاز و فرق کرنا اکثر جگہ مشکل اور دشوار ہے ۔ ہر ایک کو اپنے ہی کو حق ثابت کرنے کی فکر اور ہوڑ ہے ،بہت سی جگہ حق اور ناحق صحیح اور غلط میں اشتباہ اور گڈ مڈ ہے ایسے حالات میں انتہائی سخت ضرورت ہے کہ دربار ایزدی میں رو رو کر اخلاص اور بصیرت کے لئے دعا مانگیں تاکہ ہم خدا کی خوشنودی حاصل کرسکیں اور حق اور ناحق کو سمجھ سکیں اور اس میں فرق کرسکیں ۔حالات کو سمجھ سکیں۔دشمنوں کے مکر و فریب کو جان سکیں،ان کے فتنوں سے بچ سکیں،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص اور بصارت و بصیرت دونوں سے نوازے آمین ۔
(مضمون نگار، مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ کے جنرل سیکریٹری ہیں)