نئی دہلی:
وزیر الیکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) روی شنکر پرسادنے کہا کہ ٹوئٹر کو نئے آئی ٹی رولس 2021-کی تعمیل کے لئے تین ماہ کا وقت دیا گیا تھا، اس کے باوجود سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایسا کرنے میں ناکام رہا ہے۔روی شنکر پرساد نے کہا کہ ٹوئٹر کے پاس تین ماہ کا وقت تھا، پھر بھی بہت سارے مواقع دینے کے بعد کوئی تعمیل نہیں ہوئی۔ ان کے یہ بیانات ان اطلاعات کے درمیان سامنے آئے ہیں کہ مقررہ وقت پر قانونی افسران کی تقرری میں ناکامی کے بعد ٹوئٹر نے ہندوستان میں مطلوبہ ’سیف ہاربر‘ استثناء کھو دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں کاروبار کرنے کے لئے سوشل میڈیا سائٹس کا استقبال ہے، لیکن انہیں ہندوستان کے آئین کی پیروی کرنا ہوگا۔ ہم ڈیجیٹل خودمختاری کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ کچھ لوگ ٹوئٹر پر سیاست کر رہے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ٹوئٹر کے لئے سیاست کررہے ہیں۔ ٹوئٹر کے صارفین کو کچھ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ٹوئٹر کو اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔اس سے قبل ہی پرساد نے اسی مائیکرو بلاگنگ سائٹ پر یہ بات بیان کی تھی کہ یہ حیرت زدہ ہے کہ ٹوئٹر جو خود کو آزادی اظہار رائے و خیال کا علمبردار ظاہر کرتا ہے ، جب انٹرمیڈیری گائیڈ لائنز کی بات آتی ہے تو وہ دانستہ طور پر انحراف کا راستہ چنتا ہے۔اس کے علاوہ حیران کن بات یہ ہے کہ ٹوئٹر صارفین کے شکایات کا ازالہ کرنے میں ناکام رہتا ہے جس سے قانون کے مطابق عمل طے کرنے سے انکار کیا جاتا ہے۔
ملک کے منیجنگ ڈائریکٹر سمیت ٹوئٹر کے اعلیٰ عہدیداروں کو اب کسی بھی صارف کے ذریعہ پلیٹ فارم پر پوسٹ کیے گئے غیر قانونی اور’ ‘اشتعال انگیز‘ مواد پر پولیس سے پوچھ گچھ اور مجرمانہ ذمہ داری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ٹوئٹر وہ واحد امریکی پلیٹ فارم بن گیا جس نے حفاظتی شیلڈ گنوا دیا ۔ جسے آئی ٹی ایکٹ کے سیکشن 79 کے تحت عطا کیا گیا تھا۔
دریں اثناء غازی آباد واقعہ کی ایک ویڈیو ٹویٹ کرنے پر اداکارہ سورا بھاسکر ، صحافی عارفہ خانم شیروانی ، آصف خان اور ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی منیش مہیشوری کے خلاف پولیس میں شکایت درج کی گئی ہے۔ وکیل امت آچاریہ نے دہلی کے تلک مارگ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی تھی۔ تاہم ، اس شکایت پر ابھی تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔ ادھر دہلی پولیس نے تفتیش شروع کردی ہے۔
دوسری جانب پریس کلب آف انڈیا (پی سی آئی) نے اتر پردیش میں ایک بزرگ مسلمان پر حملے کی رپورٹ کرنے پر دی وائر اور سینئر صحافیوں سمیت کئی دیگر لوگوں پر ایف آئی آر درج کیے جانے کی مذمت کی ہے۔بتا دیں کہ منگل کو د ی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ غازی آباد ضلع کے لونی میں ایک بزرگ مسلمان پر حملہ کیا گیا تھا۔اس رپورٹ میں کئی دیگر رپورٹس کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ یہ حملہ پانچ جون کو اس وقت ہوا تھا، جب یہ بزرگ نماز کے لیے مسجد جا رہے تھے۔’عبدالصمد (72) نام کے شخص کا الزام تھا کہ پانچ جون کو ان پر حملہ کیا گیا۔ حملہ آوروں نے ان کی داڑھی بھی کاٹ دی، جیسا کہ وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا تھا۔دی وائر کی رپورٹ کئی دیگر نیوز رپورٹس پر مبنی تھی اور ان کے لنک رپورٹ میں مہیا کرائے گئے تھے۔پریس کلب نے کہا، ’پہلےسے ہی پبلک ڈومین میں دستیاب واقعات کی بنیاد پر فالواپ نیوز اور ٹویٹ کسی بھی طرح سے عوامی نظم و ضبط کی خلاف ورزی نہیں کرتے ہیں، نفرت اور سماجی کشیدگی نہیں پھیلاتے ہیں، جیسا کہ ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے۔
بیان پر پریس کلب کے صدر اوماکانت لکھیڑا اور جنرل سکریٹری ونئے کمار کے دستخط ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر درج کرناواضح طور پر غازی آباد پولیس کے انتقامی جذبے کو دکھاتا ہے تاکہ میڈیا اور سماج میں بڑے پیمانے پر اسٹیٹ کی دہشت کا جذبہ پیدا کیا جا سکے۔پریس کلب نے صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر کو رد کرنے کی مانگ کی ہے اورتمام صحافی تنظیموں سے اس طرح کے بدلے کی سیاست اور آزاد میڈیا ہستیوں اور تنظیموں کے خلاف بدسلوکی کے خلاف آواز اٹھانے کی اپیل کی ہے۔
بیان میں کہا گیا، ’پریس کلب آف انڈیا سچائی اور اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کے ساتھ کھڑا ہے۔‘آگے کہا گیا،’اتر پردیش سرکار سے ایک اور اپیل کہ وہ دخل اندازی کرے اور یہ یقینی بنائے کہ ایف آئی آر درج کرکے صحافیوں کو پولیس کی من مانی کا آسان نشانا نہ بنایا جائے۔‘