تحریر:پروفیسر مشتاق احمد
رجسٹرار،للت نرائن متھلا یونیورسٹی، دربھنگہ(بہار)
عالمی تاریخِ ادب کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وجودِ ادب کا بیشتر سرمایہ زبانی ادب پر مبنی ہے ا ور یہ سلسلہ صدیوں چلتا رہا ۔ افلاطون سے قبل یونانی ادب نے بھی زبانی ادب کے سہارے ہی زمانہ در زمانہ اپنی شناخت قائم رکھاکہ نثری اور شعری اظہار خطابت پر مشتمل تھا۔ لیکن تغیرِ زمانہ کے ساتھ تصوراتِ فکر ونظر میں تبدیلی واقع ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ اظہارِ انسانی زبانی دائرے سے نکل کر تحریری دائرے میں داخل ہوتی چلی گئی۔ غرض کہ اب نثری اور شعری دونوں فکری شہ پارے تحریری صورت میں ڈھلنے لگے۔قدیم یونانی شاعری اس کے بیّن ثبوت ہیں اور دیگر زبانوں میں بھی نثری اور شعری تخلیقات کے ذخیرے موجود ہیں۔ ان تحریری شعری اظہار کے مطالعے سے یہ عقدہ بھی اجاگر ہو جاتا ہے کہ دورِ آغاز سے ہی شعری ادب میں مذہب، معاشرہ اور حیات وکائنات کے رموز ونکات پر شعراء کی نگاہ رہی اور انہو ںنے انہی موضوعات کو اپنے فکری اظہار کا ذریعہ بنایا۔لیکن جو سب سے زیادہ متوجہ کرنے والی حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ شاعروں نے ہم عصر زندگی کی ترجمانی پر زیادہ توجہ دی اور اس عہدکے مسائل کو تصورِ سخن بنایا ۔ یہی وجہ ہے کہ جس دور میں شاعر کی حیثیت الہامی فکرِ رساء کی رہی اس وقت کی شاعری بھی مذہبی ،اخلاقی ، سیاسی اور قومی حقیقت کی غماز ہیں۔افلاطون نے تو عوام الناس کی زندگی کی تحسین وتہذیب میں ہی اپنی پوری زندگی وقف کردی اور اپنی شاعری کو اپنے عہد کے خوابیدہ عوام کو بیدار کرنے کا ذریعہ سمجھا۔ ہومر ؔ اور ہیسیڈؔکی شاعری بھی اُسی قبیل کی ہے۔ بلا شبہ اگر کسی فنکار کی تخلیقی اُپج اس کے عہد اور معاشرے کی ترجمان نہیں ہے تو وہ فنکار ابدیت حاصل نہیں کر سکتا۔ اگرچہ شعراء کے تعلق سے یہ غلط فہمی عام رہی ہے کہ شاعروں نے محض تخیلاتی دنیا آباد کی ہے اور حقیقت سے ان کی قربت کم رہی ہے ۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ تمام عظیم شاعروادیب اور فلسفی کے فکر پارے تخیل کے سہارے ہی وجود میں آتے ہیں لیکن وہ حقیقت کے عکاس ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تغیرِ زمانہ کے ساتھ ساتھ عظیم شعراء اور ادباء کے فکری شہ پارے سرمایۂ پارینہ نہیں بنتے بلکہ بدلتے وقت کے ساتھ ان کی قدروقیمت میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے اور اس کی معنویت میں گہرائی پیدا ہوتی جاتی ہے۔
مختصر یہ کہ اردواور فارسی زبان کے حوالے سے اگر تاریخِ ادب کا ایک سرسری جائزہ لیجئے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ علامہ اقبال نے اپنے فکری اظہار کو دورِ آغاز سے ہی اپنے معاشرے کے خوابیدہ افراد کو جگانے والا بنایا ۔ ’’بانگِ درا‘‘ کی ایک نظم ’’سیّد کی لوحِ تربت‘‘ کا آخری بند دیکھئے ؎
ہو اگر ہاتھوں میں تیرے خامۂ معجز رقم
شیشۂ دل ہو اگر تیر ا مثالِ جامِ جم
پاک رکھ اپنی زباں، تلمیذ رحمانی ہے تو
ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو
سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
خرمنِ باطل جلا دے شعلۂ آواز سے
مذکورہ نظم علامہ اقبال کے فکری اظہار کے اُس دور کی ہے جب وہ داغؔ دہلوی کی شاعری کے سحر سے آزاد نہیں ہوئے تھے اور نہ مغربی دنیا کو اپنی چشمِ حکیمانہ سے دیکھا تھا۔ لیکن اس وقت وہ اُس راز سے آشنا ہو چکے تھے کہ شاعری صرف اور صرف حسن وعشق کی ترجمانی کا نا م نہیں ہے بلکہ خوابیدہ معاشرے کو بیدار ی بخشنے کا کام ہے اور شعوری طورپر فلاحِ انسانیت کے لئے تیرگیٔ حیات کو روشن کرنا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ علامہ اقبالؔ نے بھی اپنی شاعری کا آغاز داغؔ دہلوی کے تتبع میں کی اور ان کی شاعری دیگر شعراء کی طرح عمومی مضامین پر مبنی تھی لیکن انہیں تو نقیبِ انسانی معاشرہ بننا تھا اور انہوں نے قدرت کے اسی تقاضے کو پورا کرنے کا فریضۂ حسنہ انجام دیا ۔ اردو کے نامور ماہر اسلامیات اور شعر وسخن کے پارکھ مولانا عبدالماجد دریابادی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’تفسیر ماجدی‘‘ میں ’’سورۃ الشعراء‘‘ کی تفسیر میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے اور شعراء کی دو قسموں کا خلاصہ کیا ہے ۔ اول وہ جو محض خیال بند اور قافیہ شعاری کو شاعری سمجھتا ہے اور دوسرے وہ جو کسی عظیم مقصد کی خاطر صحرائے سخن کی صحرا نوردی کرتا ہے اور ریگزاروں میں بھی گل بوٹے کھلاتا ہے اور اس کے لئے وہ اپنی شاعری کو آدمیت اور اخلاقیات کے اسباق سے لبریز کرتا ہے ۔ بلا شبہ علامہ اقبالؔ کی فارسی شاعری ہو کہ اردو، تمام سرمایۂ فکر فلاحِ انسانیت کی ترجمان ہے اور جس کا اعلان شروع میں ہی انہوں نے کردیا تھا کہ ؎
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری ، نفس میرا شعلہ بار ہوگا
اور اپنی ذہنی وقلبی اضطرابیت کو ’’اسرارِ خودی‘‘ میں کچھ اس طرح پیش کیا ؎
بہر ِ انساں چشمِ من شبہا گریست!
تادریدم پردۂ اسرار زیست
از درونِ کارگاہِ ممکنات!
بر کشیدم سر تقویم حیات
من کہ ایں شب را چوں مہ آرا ستم!
گرد پائے ملّتِ بیضا ستم
غرض کہ علامہ اقبالؔ نے شروع سے ہی اپنی شاعری کو محض جذباتی موضوعات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنی شاعری کو مخصوص مقصدِ اظہار کا ذریعہ بنایا۔نتیجتاً ان کی شاعری نے دورِ ابتدا میں ہی جہانِ علم وادب میں بانگِ درا کی قبولیت اختیار کرلی اور پوری دنیا حیرت واستعجاب کے ساتھ ان کی فکر ونظر کی طرف مخاطب ہوئی۔ ظاہر ہے کہ ان کی آواز ایک نئی صبح کی علامت تھی اور یہ صبح زندگی سے بھرپور تھی۔ محض زلف ورخسار کی ترجمانی تک محدود نہیں تھی بلکہ انہوں نے اپنی شاعری کو اپنے تجربات ومشاہدات کا مرقع بنا دیا تھا۔ انہوں نے شاعری کو حقیقت سے قریب کیا اور مصنوعی موضوعات سے گریز کرتے ہوئے انسانی آہ وفغاں سے لبریز کیا اور محض درد وغم کی عکاسی ہی نہیں کی بلکہ اس کا مداوا بھی تلاش کیا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دنیا کے تمام عظیم شعراء نے قومی شاعری کو طرۂ امتیاز جانا ہے۔علامہ اقبالؔ نے بھی اپنی شاعری کو مقاصدِ زیست اور قوم بنایا ہے۔ اسی لئے انہیں کسی خاص نظریے کا شاعر کہنا غلط ہوگاکہ انہوں نے اپنی شاعری سے نیم جاں غمزدہ اور لرزیدہ انسانوں کے اندر حرارت بخشی اور ان کے اندر جینے کا جوش وولولہ پیدا کیا ۔ وہ آدم کی شان وشوکت کے قصیدہ خواں تھے اور وہ اس جہاں میں انسان کو فلاحِ ارضی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کی مکمل شاعری اور نثر ی فکر پارے اسی فکر ونظر کے غمّاز ہیں ۔شاید اسی لئے اردو کے قد آور ناقد پروفیسر آل احمد سرور نے لکھا ہے کہ :
’’اقبالؔ کے فکر ونظر کے مطالعے میں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ ہم ایک ایسے شاعر کا مطالعہ کر رہے ہیں جس کے یہاں فکر کی وحدت بھی ہے ۔ عام طورپر اس فکر پر زیادہ زور دیا گیاہے ۔ شاعری کے حسن اور اس حسن کی رنگا رنگی اور ہمہ گیری پر اتنا نہیں ہے ۔ اقبالؔ کی عظمت یہ ہے کہ ان کے یہاں مشرق ومغرب کے فکری اور ادبی سرمایے پر نظر بھی ہے اور ماضی کے عرفان کے ساتھ حال کے آشوب کا احساس اور مستقبل کا ایک خواب بھی ہے اور یہ سب ایسی جاندار اور طرحدار زبان میں بیان ہواہے کہ نہ صرف ذہن اس سے مسرت اور بصیرت حاصل کرتا ہے بلکہ گنجینۂ معانی کا طلسم رہ رہ کر زندگی کے مختلف مرحلوں پر یاد رہتا ہے اور ہمیں عشقِ بلاخیز کے قافلۂ سخت جاں کی کتنی ہی وادیوں اور منزلوں میں لے جاتا ہے ‘‘
۔
اقبالؔ کی شاعری کی جو سب سے بڑی خصوصیت ہے وہ یہ ہے کہ وہ قومِ مسلم کی پست حالی سے غمزدہ ضرور ہیں لیکن وہ کسی نسلی امتیاز اور ملک پرستی کے ترجمان نہیں ہیں۔وہ ایک عالم گیر جائے امن کے خواہاں ہیں اور وہ شاعری کو انسانی ہمدردی کا آئینہ بنانے کے خواہاں ہیں ۔ علامہ اقبالؔ اس حقیقت کے طرفدار ہیں کہ ان کی شاعری با مقصد ہو اور عالمِ انسانیت کے لئے روح افزا ثابت ہو۔ وہ ماضی کے اوراق الٹتے تو ضرور ہیں اور اپنی تاریخ کے مٹتے نقوش سے اشک بار بھی ہیں لیکن وہ تھکے ہارے نظر نہیں آتے بلکہ بنی نوعِ آدم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اٹھ کر اور آگے بڑھ کر ظلمت کے خلاف صف بند ہونا ہے ۔ ان کی نظم ’’طلبائے علی گڑھ کالج کے نام‘‘ کا مطالعہ کیجئے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی شاعری سے کیسی دنیا آباد کرنا چاہتے تھے اور قوم وملّت کو کون سی نئی راہ دکھانا چاہتے تھے ، نئی نسل کو کس منزل سے آشنا کرانا چاہتے تھے۔نظم کے یہ اشعار محض شاعری نہیں ہیں بلکہ نسخۂ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں ؎
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افقِ خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کردیں
دیکھ یثرب میں ہوا ناقۂ لیلیٰ بیکار
قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کردیں
بادہ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز
جگر شیشہ وپیمانہ وصہبا کردیں
گرم رکھتا تھا ہمیں سردیِ مغرب میں جو داغ
چیر کر سینہ اسے وقفِ تماشا کردیں
شمع کی طرح جئیں بزم گہِ عالم میں
خود جلیں ، دیدۂ اغیار کو بینا کردیں
مختصر یہ کہ علامہ اقبالؔکی شاعری اپنے ہم عصروںسے بر عکس انسانی ہمدردی اور فلاحِ انسانیت پر مبنی شاعری کی مثال ہے ۔ انہوں نے اپنی شاعری کی بیج کو ماضی کی زرخیز زمین میں بویا اور فکرِ قوم کے آبِ رواں سے سینچا ۔ نتیجتاً ان کی شاعری ثمرِحیات بن گئی اور جس میں کائنات کے تمام قوس وقزح جلوہ گر ہیں۔ان کی شاعری نہ کسی مخصوص اور مقررہ تاریخ کی آئینہ دار ہے بلکہ بنی نوع انسان کی ایک مکمل تاریخ ہے۔
٭٭
ای میل:[email protected]