تحریر: سمیع چودھری
یہ………..
یہ تھا وہ لمحہ کہ جس کے انتظار میں پاکستانی کرکٹ شائقین کی دو نسلیں بوڑھی ہو گئیں اور تیسری نسل کو بھی راہ تکتے لگ بھگ ایک دہائی بیت چکی ہے۔
ریکارڈز کو دیکھا جاتا تو ون ڈے ہو کہ ٹیسٹ، ہر فارمیٹ کے اعداد و شمار میں پاکستان کی انڈیا پر فتوحات کا تناسب اطمینان بخش ہوتا تھا مگر جوں ہی بات آئی سی سی ورلڈ کپس کی آتی تو پاکستان ہر جگہ صرف اور صرف صفر کی خفت سے دوچار نظر آتا۔
ہو سکتا ہے کہ یہ صفر بہت پہلے مٹ جاتا اگر کوئی اسے سر پر سوار کرنے کے بجائے ذرا حوصلے سے میدان میں اترتا اور نارمل، سوجھ بوجھ والی کرکٹ کھیلتا۔
مگر شاید پہلے ہی ورلڈ کپ مقابلے میں اسکورلائن صفر-ایک ہونے کے بعد جو بھی پاکستانی کھلاڑی انڈیا کے خلاف کسی ورلڈ کپ میچ میں اترا، وہ اسی صفر کا بوجھ اپنی روح پر لاد کر لایا۔ میچ گزرتے رہے، روحوں پر بوجھ بڑھتے گئے اور صفر کا مقابل واحد سے جمع اور پھر جمع الجمع کی طرف جانے لگا۔
صفر-ایک سے لے کر صفر-بارہ تک کے اس سفر کے بیچ دنیا اینٹینا والے ٹی وی اور ریڈیو سے اینڈروئڈ تک پہنچ گئی مگر پاکستان کی اسکورلائن وہیں رکی رہی، جہاں یہ پہلے مقابلے کے بعد تھی۔
ابتدائی کچھ صفروں کے بعد 90 کی دہائی کے کرکٹرز نے طے کیا کہ گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلنے والا اور انگلی ٹیڑھی کرنی پڑے گی۔ اُنھوں نے سیدھی سیدھی چست کرکٹ کے بجائے ’جگرے‘ والی کرکٹ کھیل کر حساب چکتا کرنے کا سوچا۔ لیکن جگرے والی کرکٹ کھیل کھیل کر بھی تین دہائیاں گزار لیں اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
اس میچ سے پہلے جتنے بھی ہند-پاک میچز ہوئے، امیدیں ہمیشہ جوان نظر آیا کرتی تھیں۔ مگر اس بار ذرا سی پژمردگی تھی۔ یہ یکطرفہ محبت جیسا معاملہ بنتا جا رہا تھا، اس کی مانگ کمی کے خدشے سے دوچار تھی اور جو مالی نتائج آئی سی سی اس مقابلے سے حاصل کرنا چاہ رہی تھی، وہ معدوم ہوتے جا رہے تھے۔
اور بارڈر کے دونوں اطراف کم ہی لوگ تھے جو اس بار بھی کسی مختلف نتیجے کی توقع کر رہے تھے۔ گویا جو معاملہ جنوبی افریقہ کا بحیثیت مجموعی ورلڈ کپ کے حوالے سے بن چکا ہے، کچھ ویسا ہی پاکستان کے لیے ورلڈ کپ میں انڈیا کے حوالے سے ہو چلا تھا۔ گو اُنھیں کسی نے ’چوکرز‘ کہا تو نہیں لیکن اگر کہتا بھی تو ہرگز غلط نہ ہوتا۔
لیکن پھر اس لمحے کو کبھی نہ کبھی تو آنا ہی تھا۔ ہو سکتا ہے یہ لمحہ اگر کسی روٹین کے سے میچ کے انداز میں آیا ہوتا تو اس کا لطف شاید اتنا زیادہ نہ ہوتا۔ اگر پاکستان لڑتے بھڑتے، گرتے پڑتے، آخری گیند تک جا کر کسی سنسنی خیزی میں سے اچانک یہ میچ دو تین وکٹوں سے جیت لیتا تو اس کی خوشی بھی کمال ہوتی مگر شاید ایسی روح پرور نہ ہوتی۔
اس میچ سے پہلے تک کی تمام ٹی ٹوئنٹی تاریخ میں پاکستان نے کوئی بھی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل 10 وکٹوں کے مارجن سے نہیں جیتا تھا۔ دوسری جانب اس سے پہلے انڈیا نے بھی کبھی کوئی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل 10 وکٹوں سے نہیں ہارا تھا۔
اور یہ تو کوئی سر پھرا ہی سوچ سکتا تھا کہ یہ دونوں ریکارڈز بھی کسی پاکستان انڈیا ورلڈ کپ میچ میں ٹوٹیں گے۔
لیکن جس طرح سے شاہین شاہ آفریدی نے دن کا آغاز کیا، جیسے اُنھوں نے روہت شرما کو ایک کرشماتی لیٹ اِن سوئنگنگ یارکر سے نشانہ بنایا، اسی لمحے کوہلی کے بلے باز پریشر میں آ گئے۔
اپنے دوسرے اوور میں اُنھوں نے راہل کو بھی شہ مات ڈالی اور وہ پچ جہاں انڈین بیٹنگ لائن کا ممکنہ متوقع اسکور 170 تھا، وہاں آفریدی کی دوسری ضرب لگتے ہی امکانات 140 تک گر گئے۔
پاکستانی بولرز جانتے تھے کہ ٹاس پر کیے گئے فیصلے کا فائدہ اٹھانے کے لیے کوہلی کے بلے بازوں کو 150 سے کم کے مجموعے تک محدود رکھنا ضروری تھا۔ یہ بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹ تھی اور یہاں کسی بھی اچھی ٹیم کو 150 پر آؤٹ کرنا ایک عظیم کامیابی ہوتی۔
اور یہ امر نہایت خوش کُن ہے کہ پاکستانی بولرز نے یہ کامیابی اس ٹورنامنٹ کے سب سے تگڑے اور سب سے فیورٹ بیٹنگ لائن اپ کے خلاف حاصل کی۔ داد و تحسین کے کوئی بھی الفاظ، جملے یا محاورے اس بولنگ کاوش کی پذیرائی کا حق ادا نہیں کر سکتے۔
اور ہدف کے تعاقب میں اگر پھر بھی کہیں کوئی ابہام باقی تھا تو صرف اس لیے کہ ماضی میں ایسے چھوٹے اہداف پاکستانی بیٹنگ کے لیے معمے بنتے رہے ہیں۔ چنانچہ خدشات بجا طور پر موجود تھے کہ اگر بابر اعظم اور رضوان کی پارٹنرشپ ٹوٹی اور مڈل آرڈر کا دروازہ کھل گیا تو پھر نجانے کیا گزرے گی قطرے پہ گہر ہونے تک؟
سابق کوچ مصباح الحق کی کوچنگ میں کچھ اور بدلا ہو نہ ہو، پاکستان نے پہلی بار ٹی ٹوئنٹی میں اپنا اوپننگ کا سٹائل ضرور بدلا۔ اس سے پہلے دنیا بھر میں ٹی ٹوئنٹی اوپننگ کا فارمولہ یہی چل رہا تھا کہ ایک ’اینکر‘ کے ساتھ ایک ’اگریسر‘ کی جوڑی بنائی جائے۔
پاکستان بھی بابر اعظم کے ساتھ فخر زمان کو لے کر یہی چال چل رہا تھا مگر مصباح نے مستحکم ترتیب کو چھیڑ کر دوسرے اینڈ پر بھی ایک ’اینکر‘ لا کھڑا کیا۔
اپنی متنوّع جارحیت سے ماسوا، بابر اعظم اور محمد رضوان دونوں ہی اپنے اپنے تئیں ’اینکر‘ کا کردار نبھانے میں بھی کمال مہارت رکھتے ہیں۔
ان دو ’اینکرز‘ نے اپنے پچھلے دو سالہ ریکارڈ کو بالکل برقرار رکھتے ہوئے یہ شدید سنسنی والا میچ بھی اسی ’نارمل‘ انداز میں کھیلا جس سے یہ کوئی بھی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلتے آئے ہیں۔ اُنھوں نے ’جِگرے‘ والی کرکٹ کے بجائے نارمل کاپی بُک کرکٹ کھیلی۔
اور ان کی نارمل کرکٹ وہ کام کر گئی جو عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم، وقار یونس اور انضمام الحق جیسے لیجنڈز بھی نہ کر پائے۔
(بشکریہ: بی بی سی )