ایک سینیئر ایرانی اہلکار نے خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ کو بتایا ہےکہ تہران نے شام میں اپنے اتحادی بشار الاسد کی معزولی کے بعد شام میں نئی قیادت کے دھڑوں کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک براہ راست چینل قائم کیا ہے۔اہلکار نے مزید کہا کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان "مخالف راستے کو روکنے” کی کوشش کی نمائندگی کرتا ہے۔تین ایرانی عہدیداروں نے رائیٹرز کو بتایا کہ یہ معاملہ گھبراہٹ کا باعث نہیں ہے اور یہ کہ تہران ان لوگوں سے بات چیت کے لیے سفارتی ذرائع کی پیروی کرے گا تاکہ شام میں نئے حکمراں گروپوں کے ساتھ رابطے بڑھائے جا سکیں۔
ایک دوسرے ایرانی اہلکار نے کہا کہ "ایران کے لیے بنیادی تشویش یہ ہے کہ کیا اسد کا جانشین شام کو تہران کے مدار سے دور ہونے کے لیے دھکیل دے گا۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جس سے ایران گریز کرنا چاہتا ہے”۔
اگر اسد کے بعد شام ایک دشمن ریاست بنتا ہے تو یہ لبنانی حزب اللہ گروپ کو اس کے واحد زمینی سپلائی راستے سے محروم کر دے گا اور ایران کو بحیرہ روم تک پہنچنے سے روک دے گا۔
ایک سینیر اہلکار نے کہا کہ ایران کے مذہبی حکمران جو اب دمشق میں ایک اہم اتحادی کے کھو جانے اور جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کا سامنا کر رہے ہیں وہ شام کے نئے رہ نماؤں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "یہ بات چیت تعلقات کو مستحکم کرنے اور مزید علاقائی کشیدگی سے بچنے کی کلید ہے”۔اسی تناظر میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے زور دے کر کہا ہے کہ ایران کا مطالبہ شامی عوام کے مطالبات کو پورا کرنا ہے۔ایران کی بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی ’تسنیم‘نے پیر کے روز اطلاع دی ہے کہ عراقچی نے شام کے مستقبل کے بارے میں کہا ک "ہم صورت حال کی قریب سے نگرانی کر رہے ہیں کہ کیا ہوگا۔ شامیوں کے لیے حکمرانی کے حوالے سے کسی معاہدے تک پہنچنا قدرے مشکل ہے، لیکن ہم حکومت کی مرضی کو ترجیح دینے کی حمایت کرتے ہیں۔ ایران شام میں عوام کی مرضی کی حکومت کی حمایت کرے گا‘‘۔