تحریر: میگھناد بوس
’’ایودھیا ہماری ہے، اب متھرا کی باری ہے۔‘‘
یہ الفاظ تھے متھرا کے رہنے والے 32 سالہ جے کمار گپتا کے، جو کرشناجنم بھومی مندر اور شاہی عیدگاہ مسجد کے آس پاس مٹھائی کی دکان چلاتے ہیں۔
اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات کے نزدیک آنے کے ساتھ ہی ہندوتوا گروپوں اور بی جے پی لیڈروں کی طرف سے متھرا میں ’عظیم مندر‘ کی مانگ نے انتخابی اور سیاسی اہمیت حاصل کر لی ہے۔
لیکن مقامی لوگ،خاص طور پر وہ لوگ جو ان دو عبادت گاہوں کے آس پاس رہتے ہیں، متھرا میں مندر اور مسجد کے تنازع کو گہرا کرنے کی کوششوں کو کیسے دیکھتے ہیں؟
ڈپٹی چیف منسٹر کی فرقہ وارانہ بیان بازی پر تنقید
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اترپردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کا بیان، ’ایودھیا اور کاشی میں عظیم الشان مندر بن رہے ہیں، اور متھرا میں ایک کے لیے تیاری کی جا رہی ہے، انتخابی ریاست میں فرقہ وارانہ ہلچل کو بھڑکانے والے اہم تبصروںمیں سے ایک ہے ۔
اس سے پہلے کہ ہم مقامی لوگوںکا ردعمل جانیں ،ڈپٹی سی ایم کا ٹویٹ دیکھیں۔
موریہ کا بیان خاص طور پر اس لئے اہم ہے کیونکہ یہ ہندوتوا گروپ کےمتھرا میں شاہی عید گاہ مسجد کے اندرکرشنا کی مورتی نصب کرنے کے اعلان کےبعدآیاہے۔
یہاں تک کہ انتظامیہ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، لیکن موریہ کے بیان کہ ’اب متھرا کی باری ہے‘ نے بحث جاری رکھا اور وکیل مہندر پرتاپ سنگھ جیسے لوگوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔
’ کیشو موریہ کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں ایک مندر بننا چاہیے۔ یہ بہت اچھا بیان ہے اور ہم اس کا تہہ دل سے خیر مقدم کرتے ہیں۔‘ :مہندر پرتاپ سنگھ، ایڈوکیٹ
سنگھ نے متھرا کی ایک مقامی عدالت میں ایک شکایت درج کرائی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندو دیوتا کرشنا کی اصل جائے پیدائش وہی ہے جہاں اس وقت شاہی عیدگاہ مسجد واقع ہے۔ وہ کرشنا جنم بھومی مکتی نیاس کے نام سے معروف تنظیم کے سربراہ ہیں، اور انہیں لگتا ہے کہ موریہ کے تبصرہ سے پتہ چلتا ہے کہ اقتدار پر قابض پارٹی ان کی اس بات کی حمایت کررہی ہے۔
لیکن مسجد کے قریب رہنے والے مسلمان ان واقعات سے خوفزدہ ہیں۔ 38 سالہ گھریلو خاتون نور جہاں کا کہنا ہے کہ ’جو کچھ ہو رہا ہے اس سے میں خوفزدہ ہوں، میرے ساتھ میرے بچے اور میرا خاندان بھی ہے۔‘
دوسروں کا خیال ہے کہ نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے پر بیٹھے شخص کے لیے اس طرح کے ریمارکس کرنا درست نہیں تھا۔ ایک 20 سالہ طالب علم محسن خان کہتے ہیں، ’بطور نائب وزیر اعلیٰ، انہیں اس طرح فرقہ وارانہ بیان دینا مناسب نہیں ہے۔‘
42 سالہ پائل کاریگر محمد رئیس اس بات سے متفق ہیں، ’انہوں نے جو بیان دیا وہ مناسب نہیں تھا۔ وہ ووٹ کے لیے، الیکشن کے لیے ایسا کر رہے ہیں ۔‘
مندر مسجد کا مسئلہ اٹھانا انتخابی سازش
بھلے ہی انہوں نے متھرا میں مندر-مسجد تنازع کو اٹھانے کی حمایت کی ہو یا نہیں، ہم نے جتنے بھی ہندو یا مسلم مقامی لوگوں سے بات کی انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ آئندہ یوپی اسمبلی انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھایا جا رہا ہے۔
کرشنا مندر کے قریب ایک ڈپارٹمینٹل اسٹور کے مالک لکشمن پرساد سینی کہتے ہیں، ’یہ سب سیاست ہے، انتخابات میں صرف دو مہینے رہ گئے ہیں۔ ہاں، ایک مندر ہونا چاہیے، لیکن یہ مشکل ہو رہا ہے، کیونکہ ہر کوئی تنازعات کا شکار ہے۔ خوف ہے، یہاں زیادہ تر دوستانہ ماحول ہے، ہندو مسلمانوں کے لیے مسائل پیدا نہیں کرتے اور نہ ہی مسلمان ہندوؤں کے کام میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔‘
ایک 25 سالہ کباڑمزدور محمد شبیر، سینی کے اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ جس جگہ مسجد ہے وہاں ایک ’مندر‘ ہونا چاہیے، لیکن وہ سینی سے متفق ہیں کہ اب یہ مسئلہ کیوں اٹھایا جا رہا ہے۔
’جب بھی الیکشن کا وقت ہوتا ہے، یہ مسئلہ اٹھایا جاتا ہے۔ بابری مسجد، شاہی عیدگاہ مسجد اور کاشی کے مسائل اٹھائے جائیں گے۔‘: محمد شبیر
نور جہاں اپنے پیچھے کےمندر اورمسجد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں:’ اس کا استعمال عوام کا توجہ بھٹکانے کےلیے کیاجاتا ہے۔‘
(بشکریہ: دی کوئنٹ)