تحریر:قاسم سید
ہری دوار اور چھتیس گڑھ میں ہوئی نام نہاد دھرم سنسد میں خون بہانے، خانہ جنگی چھیڑنے اور مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی واضح اور واشگاف دھمکیوں کے بعد مسلم قیادت کی صفوں میں الا ماشاء اللہ پراسرار سناٹا اور خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ البتہ کچھ کرم فرماؤں نے اردو اخبارات میں ناقابل قبول اور نا قابل برداشت جیسے الفاظ کا سہارا لے کر فرض کفایہ ا دا کردیا۔کسی نے سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کی اپیل کی۔ لیکن آئین، قانون اور جمہوری دائرہ میں جس مضبوط ، مستحکم اور جراتمندانہ رویہ کی امید تھی وہ کسی مقام سے پوری نہیں ہو سکی شاید ا نہیں ہندو مسلم کشیدگی بڑھنے کا اندیشہ رہا ہو، اس لئے دونوں گالوں پر طمانچہ کھانے کے بعد بھی مسکرا دینے کی روش پر چلنا زیادہ مناسب سمجھا گیا ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اشتعال انگیزی کا اشتعال انگیزی اور اینٹ کا جواب پتھر سے دے کر ریڈیکل ہندتوا کے گھناؤنے مقاصدکی تکمیل میں معاون ہوا جائےمگرشکستہ حوصلوں، ٹوٹے پنکھوں اور نا تمام مرادوں کو پرواز دینے کے لیے تحریک تو پیدا کی جا سکتی ہے ۔ہم کبھی ان کے بارے میں بھی سوچیں جو اکثریتی فرقے کی آبادی میں دانتوں کے درمیان زبان کی طرح رہتے ہیں اور دھمکی بھرے اعلانات اور اقدامات کے وقت چاہتے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر ہاتھ رکھنے والا بھی ہو تاکہ وہ عزم و قوت کے ساتھ سانسیں لے سکیں۔
نام نہاد دھرم سنسدوں میں جو زہر اگلا گیا ،اس پر حکومت کی خاموشی،انتظامیہ کی بے حسی،مسلم قیادت کے حد درجہ محتاط ردعمل نے انصاف پسند شہر یو ں بالخصوص مسلمانوں میں اضطراب ہے، ایسے ماحول میں معروف تعلیم یافتہ فلم اداکار نصیر الدین شاہ کی تلخ مگر باغیانہ تیوروں سے بھرپور مہذب بلند آواز نے پرسکون سمندر میں ارتعاش کی لہریں پیدا کردیں ۔ نصیرالدین شاہ سوفیصد فلمی ہیں وہ کوئی مثالی مسلمان نہیں ۔ان کی بیوی بھی ہندو ہے۔ انہیں مسلمانوں سے مسلمان کی بنیادپر کوئی ہمدردی بھی نہیں ہے ۔
فلم جگت کے شہری ہیں جہاں مذہب کا کوئی گزر نہیں باوجود اس کے کہ2014 کے بعد سے فلم انڈسٹری بھی ہندو مسلم کے زہریلی جھونکوں سے محفوظ نہیں رہی ، ان کو بد تر مسلمان بھی سمجھ لیا جائے ایسے تمام تحفظات کو تسلیم کرنے کے باوجودبلاشبہ انہوں نے دھرم سنسد میں کہی گئی باتوں کا مناسب انداز میں جواب دے کر زندہ ہونے کا احساس دلادیا۔ نصیرالدین شاہ نے کرن تھاپرکے ساتھ انٹرویو میں دو ٹوک انداز میں وہ سب کچھ کہہ دیا جو مورخ بھی چاہتا تھا۔انہوں نے کہا کہ ’اگر انہیں یہ پتہ ہے کیا بات کر رہے ہیں تو میں حیران ہوں وہ خانہ جنگی کی اپیل کر رہے ہیں ہم بیس کروڑاتنی آسانی سے فنا ہونے والے نہیں ہیں ۔ہم بیس کروڑ لڑیں گے یہ ہمارا مادر وطن ہے ۔
’’مجھے یقین ہے کہ جب یہ مہم شروع ہوگی توسخت مزاحمت ہو گی اور لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑے گا‘‘
نصیر الدین شاہ نے کہا کہ’’مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنایا جارہا ہے ،یہ مسلمانوں میں خوف پیداکرنے کی کو شش ہے لیکن مسلمان ہار نہیں مانیں گے‘‘
نصیرالدین شاہ نے جوکچھ کہا ہے اس کا ایک ایک لفط ہندوستانی مسلمان کے دل کی آواز ہے ،وہ چاہتا تھا کہ اس کے موقف کی مضبوطی کے ساتھ بغیر الفاظ چبائے ترجمانی ہو،اور بے جگری سے ہو یہ کام ایکٹر شاہ نے کردیا اور خوب کیا اس میں کہیں اشتعال انگیزی نہیں ،جذبات کو بھڑکانے کی کوشش یا آگ میں بے خوف وخطر کود جانے کا مشورہ نہیں ،دعوت مبارزت نہیں ہاں یہ ضرور جتادیا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے ،مزاحمت تو ہوگی، بغیر لڑے ہتھیار نہیں ڈالے گا مسلمان ،خانہ جنگی چھیڑنے کا شوق ہے تو پہلے نتائج و عواقب پر بھی غور کرلیں ۔اس میں ملک کا کتنا فائدہ اور نقصان ہے ،ظاہر ہے بیس کروڑ افراد کو نہ ہی سمندر برد کیا جاسکتا ہے اور نہ دیس نکالا ممکن ہے تو پھر ایسی لن ترانیوں سے کیا حاصل ۔جیسا کہ عرض کیا شاہ کے بیان میں بغیر لڑے ہار نہ ماننے کا مشورہ ہے ،شاہ کا بین الاقوامی شہرہ ہے اس لیے اس کی گونج بہت دور تک گئی ہے۔ ان کے الفاظ میں مسلمانوں کا غصہ اور تشویش کے ساتھ چیلنج اور ملک کے لیے فکر مندی ہے ،ایک پیغام ہے کہ ہمیں بھیڑ بکریاں نہ سمجھا جائے جن کو ماردیا جاسکتا ہے۔ ہم اپنے ایمان، جان و مال کی آخری سانس تک حفاظت کریں گے،لڑے بغیر ہار نہیں مانیں گے ،آپ الیکشن میں نفع نقصان کا میزان لگاتے رہیں۔ شاہ نے کمیونٹی کے تئیں اپنے حصہ کا کام بر وقت کردیا اللہ تعالیٰ جس سے چاہے کام لے لے۔
’’کاش یہ الفاظ کسی خانقاہ،کسی جبہ و دستار ،کسی گنبد، مسند،کسی ممبر سے بلند ہوتے تو اس کے اثرات کہیں زیادہ ہمہ گیر و ہمہ جہت ہوتےایک ناچنے گانے والے فلم ایکٹر کا ایمان و یقین حوصلہ و عزم اپنی تمام بشری کمزوریوں اور ظاہری گناہوں کے بوجھ کے ساتھ ہمالیہ کی طرح مستحکم اور راسخ نظر آرہا ہے اور کسی کے ایمان و کفر کا فیصلہ دینے والے اپنے وجود کی سلامتی کے خوف میں گنگ زبان کے ساتھ روپوش یا جدید اصطلاح میں کوارنٹین میں ہیں۔‘‘
’’نصیرالدین شاہ تم نے 20کروڑ لوگوں کی ترجمانی کرکے ان کی لاج رکھ لی،تمہارا بہت بہت شکریہ ،تم نے دنیا خاص طور سے ہندوستان کے ارباب اقتدار تک مسلمانوں کا یہ پیغام پہنچادیا کہ اسلاموفوبیا،ماب لنچنگ اور کچلنے کی ناپاک مہم نے ہمیں متحمل، صابر وشاکر ضروربنادیا ہے لیکن کم ہمت ، بزدل اور ڈرپوک نہیں۔‘‘