نئی دہلی :
آکسیجن اور دواؤں کے علاوہ اب ملک کے دارالحکومت میں بھی بستروں کی بلیک مارکیٹنگ شروع ہوچکی ہے۔ ایک بیڈ کی قیمت 2 لاکھ روپے تک لگائی جارہی ہے۔ سرکاری اور نجی دونوں ہی اسپتالوں میں ایسا دیکھنے کو مل رہاہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ سارا کیش کا کھیل اس انداز سے چل رہا ہےجس سے نہ توتیمار دار سمجھ پا رہا ہے اور نہ ہی اس میں کسی بھی طرح کے ثبوت مل پا رہے ہیں۔
رات کے اندھیرے میں 11 بجے کے بعد یہ نیلامی اس طرح شروع ہوتی ہے کہ صبح تین بجے سے پہلے تک بستر خالی ہونے کے بعد بھر جاتے ہیں۔ تین سے چار گھنٹے تک ، پہلے مریض ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ میں تڑپتا رہتا ہے اور اسے بستر خالی نہ ہونے کا حوالہ دیا جاتا ہے، لیکن بعد میں ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ کے پاس کیش ہے؟ اگر مریض کے پاس کیش کا انتظامات ہے تو اسے ترجیجی طور پر بھرتی کیا جارہا ہے جبکہ انشورنس والے معاملے پر دھیان نہیں دیا جارہا ہے۔
صرف یہی نہیں ریمیڈسیور کے حوالے سے فرضی واڑا تیزی سےشروع ہو چکا ہے۔ جنوبی ریاستوں میں موجود فارما کمپنی کا نمائندہ بن کر لوگوں سے وہاٹس ایپ کے ذریعے گھر پر ریمیڈسیور انجکشن فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور ادائیگی مکمل ہونے کے بعد فون بند ہوجاتا ہے۔ اب تک ایسے کئی معاملات سامنے آرہے ہیں۔ محکمہ صحت اور مرکزی وزارت صحت بھی لوگوں سے اس دھوکہ دہی سے آگاہ رہنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ وزارت کے جوائنٹ سکریٹری لیو کمار اگروال نے تو یہاں تک کہا کہ کچھ لوگوں کو کوئی پریشانی نہیں ہے لیکن وہ اپنے گھروں میں سلنڈر ، دوائیں اور انجکشن رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ بعد میں ضرورت پڑ سکتی ہے جبکہ یہ غلط ہے۔
فون پر کسی کو بیڈ نہیں
دہلی کے 300 سے زیادہ اسپتالوں میں کورونا مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے۔ دہلی سرکار کی ویب سائٹ پر بستر دستیاب ہیں ، لیکن جب وہ مذکورہ اسپتال کے نمبر پر کال کرتے ہیں تو وہ مصروف ہی آتا ہے۔انٹرنیٹ سے نمبر لے کر جب کال کریں گے تو بستر خالی نہیں ہونے کے بارے میں بتایا جائے گا ، لیکن رات کو اگر براہ راست ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ پہنچتے ہیں تو وہاں بستر ملنے کی امید زیادہ ہے۔ ٹھیک ایسا روہنی سیکٹر 7-رہائشی گوری شنکر اگروال کے ساتھ بھی ہوا۔ بی ایل کے اسپتال نے فون پر آکسیجن بیڈ نہ ہونے کا حوالہ دیا لیکن گزشتہ رات ایک بجے انہیں کسی اسپتال میں بھرتی کرلیا۔ ان کے تیمار دار نے ڈیڑھ لاکھ روپے دے کر بیڈ ملنے کی بات قبول کی لیکن مریض کہاں ہے یہ نہیں بتایا۔ ایسا ہی سریتا وہار کے مریض دنیش نے بتایا لیکن انہوں نے بترا اسپتال میں فون پر بیڈ نہ ہونے اور ویٹنگ میں 250 مریضوں کے ہونے کے بعد بھی بیڈ ملنے کا طریقہ نہیں بتایا۔
لوک نایائک اسپتال میں 50 ہزار روپے مانگے
پانی پت کے رہائشی روہت سچدیوا نے بتایا کہ گزشتہ جمعرات کے روز وہ اپنی بیوی ببیتا کو لے کرلوک نایائک اسپتال پہنچے تھے۔ یہاں گیٹ کے باہر ہی ایک ایمبولینس میں تین گھنٹے رہے۔ اسی دوران ایک شخص نے50 ہزار روپے میں ایک بستر دلانے کی بات کہی۔ نہ اس نے فون نمبر دیا اور نہ ہی کچھ اور جانکاری ۔ ایک وقت تک روہت مذکورہ شخص کو 50 ہزار روپے دینے کا سوچ چکا تھا لیکن تبھی انہیں اندر بیڈ ملنے کی جانکاری مل گئی۔ مریض کو بھرتی کرانے کے بعد انہوں نے دیکھاکہ وہ کئی لوگوں سے ڈیل کررہا تھا۔
ہوشیار ! سوشل میڈیا پر پھیلے نمبر بیکار
ان سب کے علاوہ دہلی میں بھی سوشل میڈیا پر بھی تیزی سے نمبر پھیل رہے ہیں۔ ان میں سے کئی آکسیجن ریفلنگ کر نے والا ہے تو کئی سلنڈر دینے والا ۔ کہیں کوئی اسپتال میں بیڈ دلا رہاہے تو کہیں ریمیڈسیور اور دوا دلانے کا دعویٰ کررہا ہے لیکن جب لوگ ان نمبروں پر فون لگاتے ہیں تو زیادہ تر بند یا مصروف مل رہے ہیں ۔ ان کی وجہ سے لوگ بھی کافی پریشان ہوتے ہیں کیونکہ وہ ادھر ادھر چکر کاٹنا بھی نہیں چاہتے۔