وارانسی :
ایسا لگتا ہے کہ گیان واپی مسجد کا معاملہ بابری مسجد کے راستے پر جا رہا ہے۔ اطلاع کے مطابق مقامی عدالت نے کاشی وشوناتھ مندر کےتعلق سے فیصلہ دیتے ہوئے گیان واپی مسجد کمپلیکس کاراڈار ٹیکنالوجی سے آثار قدیمہ سے سروے کرانے کی منظوری دے دی ہے۔ سول جج سینئر ڈویژن فاسٹ ٹریک کورٹ آشوتوش تیواری کی عدالت نے جمعرات کو لارڈ وشیشورناتھ کےعرضی گزاردوست وجے شنکر رستوگی کی اس سلسلے میں درخواست کو قبول کرلیا۔بابری مسجد کے معاملہ میں بھی ایسا ہوا تھا ۔ ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیم نے کھدائی کے بعد وہاں سے مندر کے باقیات ملنے کا دعویٰ کیا تھا۔
عدالت میں اس قدیم مورتی سوئیمبھو لارڈ وشیشورناتھ کے عرضی گزار دوست وجے شنکر رستوگی کی طرف سے سال 1991 سے زیر التوا اس قدیم مقدمے میں درخواست دائر کی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ موجا شہر خاص میں واقع گیان واپی کمپلیکس کا اراضی نمبر 9130 ، 9131 ، 9132 رقبہ ایک بیگھہ نو بسووا اراضی کا آثار قدیمہ سے راڈارٹیکنالوجی کے ذریعہ سروے کراکےیہ بتایا جائے کہ جو زمین ہے وہ مندر کے باقیات ہیں یا نہیں ۔ ساتھ ہی متنازع ڈھانچے کا فرش کو توڑ کر دیکھاجائے کہ 100 فٹ اونچی جیوترلنگ سوئیمبھو وشیشورناتھ وہاں موجود ہے یا نہیں۔ دیواریں قدیم مندر کی ہیں یا نہیں۔
راڈارٹیکنالوجی کی مدد سے اس سروے سےزمین کی مذہبی نوعیت کا پتہ چل سکے گا۔عرضی گزار دوست رستوگی نے استدلال دیا کہ چودہویں صدی کے اس مندر کی پہلی منزل میں ایک ڈھانچہ ہے اور گراؤنڈ فلور میں ایک تہہ خانہ ہے ، جس میں100 فٹ اونچا شیولنگ ہے ، جو کھدائی سے واضح ہوگا۔ یہ مندر ہزاروں سال قبل راجا وکرمادتیہ نے وکرم سنوت میں تعمیر کرایا تھا۔ پھر ست یوگ میں راجا ہریش چندر اور1780 میں اہلیا بائی ہولکر نے تزئین و آرائش کرائی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب اورنگ زیب نے مندر پر حملہ کیا تھا تو اس کے بعد سو سال سے زیادہ عرصہ تک یعنی 1669 سے 1780 تک مندر کا وجود ہی نہیںتھا۔