رامپور :
مقامی امیر جماعت اسلامی رامپور اور معروف عالم دین مولانا عبدالخالق ندوی نے کہا ہے کہ موجودہ حالات مسلمانوں کے لئے اچھے نہیں ہیں، ملک کی صورت حال کو اطمینان بخش نہیں کہا جا سکتا۔ جن کے ہاتھ میں طاقت ہے، وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ہجومی تشدّد کے واقعات مسلسل پیش آ رہے ہیں۔ خواتین کی عزّت و آبرو اپنے گھر اور خاندان میں بھی محفوظ نہیں ہے۔ ان پر زیادتیاں کرنے والے عموماً گھر کے افراد ہی ہوتے ہیں۔ زنا بالجبر کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ خواتین کے استحصال کی خبریں متواتر موصول ہو رہی ہیں۔ آزادی رائے پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ مولانا عبد الخالق ندوی نے کہا سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کیا ہم مہر بہ لب رہیں اور جو ہو رہا ہے، ہونے دیں؟ بلا شبہ ہمارے مسائل سنگین ہیں، لیکن ہمیں ان کے حل کی کوشش کرنی چاہئے۔ کیونکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان حالات سے خود کو لاتعلّق نہ رکھیں۔ ملک سے ہماری خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اصلاحِ احوال کی جد و جہد کریں۔ جامعۃ الصالحات میں استاد حدیث مولانا عبد الخالق ندوی نے کہا کہ اللہ کے رسول جب مبعوث کئے گئے تھے تو عرب کے حالات اس سے بھی بدتر تھے، لیکن آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ حق کا اعلان کریں، لوگوں کی سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کریں اور انہیں اللہ کی طرف بلائیں۔
مقامی امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ موجودہ حالات میں ہمارے کرنے کے دو کام ہیں: ایک یہ کہ ہم اپنی پوری زندگی کو اللہ کے احکام کے تابع کر دیں۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، ہر لمحہ اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں۔ ہماری عبادات، ہمارا جینا، ہمارا مرنا، سب اللہ کے لئے ہو۔ جب انسان اپنی پوری زندگی اللہ کے حوالے کردیتا ہے تو اسے خدا پرستی کی معراج حاصل ہوتی ہے۔
دوسروں کو اللہ کی طرف دعوت دیں۔ اسلام کے اخوت، محبت، بھائی چارگی کے پیغام کو اہل وطن تک پہنچائیں۔ مولانا نے کہا کہ آپ بھکاری بن کر نہ رہیں، دنیا کے پیچھے چلنے والے نہ بنیں، بلکہ اس کے رہبر بنیں۔ اس طرح آپ کے مسائل بھی حل ہوں گے اور آپ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے والے بھی ہوں گے۔ مولانا نے کہا کہ دین اسلام اور خالق کائنات اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دینا انبیاء و علماء کا طریقہ ہے۔ جو لوگ اسلام کی دعوت دیں، ان کی پہلی ذمہ داری ہوگی کہ وہ خود اس پر عمل کریں اور اپنے کردار سے دین حق کی سچائی کو ثابت کریں۔ انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ نے اسلام کی تبلیغ کے لئے انبیاء کو بھیجا جنہوں نے پتھروں کے جواب میں پتھر نہیں برسائے اور گالی کا جواب گالی سے نہیں دیا بلکہ حکمت سے کام لیتے ہوئے احسن انداز سے فریضۂ تبلیغ سر انجام دیا۔
مولانا عبدالخالق ندوی نے کہا کہ رسول اللہ نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ جہاں جس انداز میں سمجھانے کی ضرورت ہوتی، وہی انداز اختیار فرماتے اور احساس رکھتے کہ دعوت کا ایسا انداز نہ ہو کہ جس سے مدعو حضرات اکتاہٹ محسوس کرنے لگیں۔ محمدؐ مصطفیٰ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی کتاب قرآن مجید اور نبی کریم کی ساری زندگی بطور نمونہ ہمارے سامنے ہے اور دین اسلام کی تبلیغ کا کام ہمارے ذمہ ہے جو کہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ تبلیغ اسلام کا کام ہر زمانے میں جاری رہا اور موجودہ حالات میں بھی اس کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ پہلے تھی۔ یہی امت کا اصل مشن ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امت مسلمہ میں ہر دور میں کم از کم ایک ایسی جماعت کا وجود ضروری ہے جو عام لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے“۔ (سورة آل عمران: 104 ) فرداً فرداً ہر مسلمان ان احکامِ قرآن کا مخاطب ہے اور اس کا فرض بنتا ہے کہ اللہ کی طرف بلائے۔
مولانا نے کہا کہ امت مسلمہ کو دیکھ کر دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس دنیا میں بسنے والے انسانوں کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور انسانیت کے لیے حقیقی راہِ نجات کیا ہے؟ اس گواہی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جس طرح نبیؐ نے تبلیغ دین کا حق ادا کیا، پوری زندگی اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچاتے رہے اسی طرح اس کا حق ادا کیا جائے اور پوری زندگی اس مشن کو زندہ اور قائم رکھاجائے۔ شرح و تفسیر میں مفسرین کی یہ صراحت ملتی ہے کہ ہم مسلمانوں کو روز محشر اللہ کی عدالت میں اس بات کی شہادت دینی ہوگی کہ اے اللہ تیرے رسول کے ذریعہ ہم کو جو ہدایت ملی تھی، ہم مسلمانوں نے اسے تیرے عام بندوں تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اے اللہ! تیرے آخری نبی کے واسطہ سے ہم کو جو دین حق ملا تھا، ہم نے اسے من و عن پوری دنیا تک پہنچا دیا اور اسے قبول کرنے کی عام دعوت دی۔ ظاہر ہے اس دنیا میں اگر ہم نے دعوت دین کا کام نہیں کیا اور اللہ کے بندوں تک دین حق کاپیغام لے کر نہیں پہنچے اور ان کو قبول اسلام کی دعوت نہیں دی تو آخرت میں اللہ کے دربار میں یہ گواہی ہم کیسے دے سکیں گے؟ آخری خطبہ میں بھی آپؐ نے پورے مجمع سے گواہی لی تھی کہ تم سب اس بات کے گواہ رہنا کہ مجھ پر تبلیغ دین کی جو ذمہ داری تھی، میں نے اسے ادا کر دیا ہے۔ اسی طرح آج دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی یہ ذمہ داری ہم مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔
مولانا نے کہا کہ غور کیجیے! کیا امت مسلمہ پوری دنیا کو مخاطب کر کے کہہ سکتی ہے کہ اے دنیا والو! تم سب گواہ رہنا کہ اللہ تعالیٰ نے بحیثیت امت مسلمہ ہم پر تبلیغ دین کی جو ذمہ داری ڈالی تھی، وہ ذمہ داری ہم نے ادا کر دی ہے ۔ پوری دنیا تو کیا ہم اپنی بستی یا قرب و جوار کے غیر مسلم باشندوں کو مخاطب کر کے بھی ایسا نہیں کہہ سکتے، کیوں کہ ہم نے مطلوبہ انداز میں ان تک دین کی بات پہنچائی ہی نہیں۔ مولانا نے کہا کہ دعوت اسلام دنیا کا سب سے عمدہ کام ہے اور دنیا کی سب سے بڑی سچائی بھی اسلام ہے، یہی نجات کا واحد راستہ ہے، اس کی طرف لوگوں کو بلانا سب سے بڑی نیکی ہے۔ ظاہر ہے جو لوگ اسلام کی دعوت دیں گے ان کی پہلی ذمہ داری ہوگی کہ وہ خود اس پر عمل کریں۔ نیک بنیں اور اپنے اعمال و کردار سے اس سچائی کو ثابت کریں۔ قرآن مجید میں ایک جگہ اسی بات کو بڑے خوب صورت انداز میں کہا گیا ہے ”اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا میں مسلمان ہوں“۔ (حم السجدة: 33 ) جبکہ غیر مسلم لوگوں کے دلوں میں بھی اسلام کی پیاس موجود ہے کیونکہ جو دائرۂ اسلام سے باہر ہیں ان کو مسلسل اپنی فطرت سے جنگ لڑنا پڑتی ہے، جبکہ اسلام خود دین فطرت ہے۔ اسلام میں عدل و انصاف ہے، عزت و احترام ہے، انسانوں کی ہر طرح کی ضروریات کی رعایت ہے۔ ہر شخص صرف اپنے ہی اعمال کا جواب دہ ہے اور کسی پر اس کی طاقت و قوت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ اس کے عقائد بہت ہی شفاف اور عقل و فہم میں آنے والے ہیں۔ عبادات سے لے کر معاشرت و معاملات بلکہ زندگی کے ہر میدان کے لیے مفصل ہدایات ہیں۔اس کی مذہبی کتاب وحی الٰہی پر مبنی ہے اور ہمیشہ کے لیے ترمیم و تخفیف سے محفوظ ہے۔ اس کی دیگر تعلیمات کا بھی پورا ذخیرہ مستند تاریخی روایات پر مشتمل ہے اور صدیوں کی تاریخ ان احکام وتعلیمات کا عملی ثبوت ہے۔
اسلام کی یہ ایسی خوبیاں ہیں جو کسی بھی حقیقت پسند آدمی کو ایمان لانے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ ہمارے بہت سے مسلمان بھائی بہنیں اب بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اللہ صرف ہمارا معبود ہے، قرآن مجید صرف ہماری کتاب ہے اور آخری نبی صرف ہم مسلمانوں کے نبی اور رسول ہیں۔ جبکہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام صرف مسلمانوں کا دین نہیں ہے بلکہ یہ پوری انسانیت کا دین ہے اور اس دین کو اپنانے والے مسلمان کہلاتے ہیں۔ دنیا کا ہر انسان اس کا مخاطب ہے۔ اس لیے ہمارا فرض ہے کہ غیر مسلم بھائیوں کو اس دین سے متعارف کرائیں، تاکہ بطور مسلمان ہم اپنی ذمہ داری احسن طور پر نبھا کر روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ سکیں۔