تحریر: قاسم سید
تشدد کہیں بھی ہو قابل مذمت اور ناقابل معافی ہے۔جب یہ اقلیت پر ہو تو سنگینی کئی گنا بڑھ جاتی ہے،شاید یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان میں مندر پر حملہ ہوا یا بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت کو نشانہ بنایا گیا بجاطور پر بھارت سرکار نے نہ صرف تشویش کا اظہار کیا بلکہ مطلوبہ اقدام کا بھی مطالبہ کیا۔ ایسا ہوا بھی،پاک سپریم کورٹ اور حکومت نے سخت ایکشن لیا،مندر تعمیر کرایا اور شرپسندوں کی گرفتاری ہوئی ۔وہیں بنگلہ دیش نے متاثرہ علاقوں میں فوج تعینات کی،چھ لوگ مارے گئے، جن میں چار مسلمان تھے۔ 450افرادکو گرفتار کیا،پی ایم شیخ حسینہ نے کھل کر کہاکہ کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا خواہ کسی مذہب کا ہو گرچہ انہوں نے بھارت کو مشورہ بھی دیا کہ ایسے واقعات نہ ہونے دیں، جن کا ردعمل ہو۔ان ملکوں نے کوئی احسان نہیں کیا حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے آئینی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں اور جب معاملہ اقلیت کا ہو تو اکثریتی فرقہ بھی کٹہرے میں ہوتا ہے اسے بھی اپنی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہونا پڑتا ہے،ایسے ہر معاملہ میں بھارت سرکار کی تیزی اور ذمہ دارانہ رویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اقلیتوں کے لیے کتنی حساس ہے۔ معاملہ افغانستان کا ہو یا بنگلہ دیش کا،پاکستان کا ہو یا امریکہ کا ہماری قیادت فوری حرکت میں آتی ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہو تی جب کشمیر میں مشتبہ دہشت گردوں نے اقلیتی فرقہ کے کچھ افراد کو نشانہ بنایا تو پورا ملک چیخ اٹھا ، میڈیا میں طوفان آگیا ،وزیر داخلہ کشمیر دورے پر گئے، پانچ کمپنی مزید فوج اتار دی گئی،تفتیش کے لیے 700افراد جن میں بیشتر نوجوان تھے اٹھالیے گئےتاکہ قصورواروں تک پہنچا جاسکے۔ یہ واضح رہے کہ جن ممالک کا تذکرہ ہوا یا کشمیر کے واقعات ہوئےیہاں معاملہ ہندو اقلیت کا تھا،اس پر اعتراض کی بجائے اس بنیاد پر مودی سرکار کو شاباشی دینے چاہیے، وہ اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے کتنی حساس باخبر اور فرض شناس ہے،ان کے کانٹا بھی چبھے تو بے چین ہو جائے ،کسی ملک کی سرکار کو اپنی ہر اقلیت کے لیے بلا امتیاز مذہب و ملت ایسا ہی ہونا چاہیے ،یہ بھی اتفاق ہے کہ بھارت سرکارایسے جس معاملہ میں متحرک اور بے چین نظر آئی وہ ہندو ؤں سے متعلق تھا۔
بہر حال یہ تو صاف ہے کہ سرکار کو اقلیت کا بڑا خیال ہے مگر کیا اس کا ہندو اور پھر ہندو اقلیت ہونا شرط ہے۔ یہ سوال اس وقت بھی پیدا ہوا تھا جب آسام میں پولیس کی موجودگی میں ایک ریڈیکل ہندو فوٹوگرافر ادھ مرے مسلمان کے سینے پر کودتا ہے اور فورس اسے کچھ نہ کہہ کر نیم جاں شخص کو گولی مارنے کے بعد لاٹھیاں برساتی ہے اور اس وقت بھی سوال اٹھا ہے جب تریپورہ کی اقلیت پر ہندو ریڈیکل فسادی یلغار کرتے ہیں ،مساجد اور گھروں کو نشانہ بناتے ہیں، کئی مساجد نذر آتش کردی جاتی ہیں، فسادی گھروں کو ڈھانے کے لیے بلڈوزر لے کر آتے ہیں مگر حیرت ہے کہ اقلیتی حقوق کے لیے بے چین سرکار انہیں نہ تحفظ فراہم کرتی ہے نہ ہی فسادیوں کے نکیل ڈالتی ہے ۔ محترم پی ایم اور وزیر داخلہ اس طرح کے ہر واقعہ پر جو مسلم اقلیت سے متعلق ہو حسب روایت خاموش رہتے ہیں ۔ اپوزیشن میں راہل کے علاوہ سب کی زبانیں گنگ رہتی ہیں۔ تریپورہ کے وزیر اعلیٰ اور ڈی جی پی ایسے کسی واقعہ سے ہی انکار کرتے ہیں ،تو کیا ہماری سرکاریں اقلیت،اقلیت میں مذہب کی بنیاد پر فرق کرتی ہیں اور فرق کرتے ہوئے نظر بھی آنا چاہتی ہیں۔
مسلم اقلیت کے جان و مال دوسروں پر جائز کردیے گئے ہیں ؟بیرون ملک اور کشمیر میں ہندو اقلیت اور بھارت میں رہنے والی مسلم اقلیت کے حقوق میں فرق و امتیاز ہے ؟کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اس امتیاز کی متحمل ہوسکتی ہے کیا الیکشن جیتنے اور سرکار بنانے کے لیے ملک کو بھی داؤ پر لگا یا جاسکتا ہے؟ کیا مسلمانوں کو دس گز زمین میں گاڑ دینے،ان کی چمڑی ادھیڑدینے، زندہ کھال اتاردینے ،اور………….. کو گولی ماردینے کے سفاکانہ طرزعمل میں ہی سب کا وکاس ہے ؟
یاد رکھیے اتنی بڑی اقلیت کو لاکھ کوششوں کے باوجود نہ سمندر میں دھکیل سکتے ہیں اور نہ ملک بدر کیا جاسکتا ہے، بھلے ہی پوری سرکاری طاقت اور مشنری جھونک دی جائے ، سرکاری تعصب، نفرت اور امتیازی رویہ الیکشن جتوادے گا، لیکن ملک کو تباہ کردے گا۔ آپ کا سورج نصف النہار پر ہےلیکن اس کی قسمت میں بھی زوال ہے۔ قانون قدرت سے کوئی نہیں بچ سکا ہے،آپ کی تو بساط ہی کیا۔