مولانا عبد الحمید نعمانی
فرقہ وارانہ تعلقات کی بہتری اور خرابی میں تاریخ کی صحیح و غلط پیشکش و تعبیر و تجزیہ کا بنیادی دخل ہے ، گزشتہ کچھ عرصے سے اکثریت کے ایک طبقے خصوصاً اس کی نوجوان نسل میں ایک خاص طرح کا نفرت انگیز فرقہ وارانہ ذہن تیار کرنے کے لیے جہاں ایک طرف غلط تاریخ اور حقائق کے خلاف من گھڑت قصے, کہانیوں کو بڑی رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف مسلم نام والے حکمرانوں کے مد مقابل ہندو نام والے حکمراں اور اشخاص کو ہندو تو کے نمائندے و محافظ اور راشٹر وادی ، ناقابل شکست کردار کے طور پر سامنے لاکر جھوٹا فخر اور فرقہ پرستی کو بڑھاوا دے کر سماج کی فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کر کے سیاسی تفوق و تسلط قائم کرنے اور اسے بحال رکھنے کا پورا پورا جتن کیا جا رہا ہے، اس کے لیے حوالے کے طور پر محمد بن قاسم بنام راجا داہر ، شہاب الدین غور بنام پرتھوی راج چوہان ، اکبر بنام مہارانا پرتاپ ،اورنگ زیب بنام شیواجی کے واقعات و معاملات کو اس طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ آج کی تاریخ میں کوئی سبق و رہ نمائی ملنے کے بجائے فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ اور ملک کے باشندوں کی توانائی و توجہ اس کی تعمیر و ترقی پر ہونے کے بجائے ، کسی کمیونٹی کو ختم کرنے پر صرف ہو رہی ہے ، کچھ عناصر تو باہمی نفرت و فساد کو کاروبار اور خود کو زندہ رکھنے کے وسائل کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ، اس صورت حال کو یک طرفہ طور سے جاری رکھنے سے ملک و قوم پر مضر و دور رس اثرات و نتائج مرتب و برآمد ہوں گے بلکہ ہو رہے ہیں ، ماضی کے بہت سے واقعات کو اقتدار اور نسلی و سیاسی بالادستی کی کوششوں کے تحت رکھنے کے بجائے ہندو تو اور اسلام کی بالادستی اور ہندو مسلم فرقہ وارانہ تسلط کے رنگ میں حد سے بڑھا چڑھا کر پیش کرنا دیانت داری وانصاف کے منافی ہے ، خاص طور سے مشترک آبادی پر مشتمل جمہوری نظام کے عہد میں جب کہ حکمراں کے انتخاب اور حکومت کی تشکیل میں بلا امتیاز مذہب و فرقہ تمام باشندوں کی شمولیت و حصہ داری ہوتی ہے ، جمہوری طرز حکومت اور شخصی و شاہی نظام حکومت میں خاصا فرق ہوتا ہے دونوں کے اوقات و حالات کو نظر انداز کر کے ماضی کو حال کے تناظر میں دیکھنا ہی بنیادی طور پر غلط ہے ،ایسی صورت میں صرف اس کا جواز ہے کہ وہ ماضی کو اس کے صحیح پس منظر کے ساتھ حال میں پیش کریں ، حملہ آور ہونے کے ناتے اورنگ زیب اور شیوا جی میں تفریق کرنا تاریخی حقیقت اور انصاف و دیانت کے منافی ہے ، دونوں نے اپنے مملکت کی توسیع و تقویت کے لیے حملے کیے ہیں ، بلکہ کئی لحاظ سے شیوا جی، اورنگ زیب سے بسا اوقات آگے نظر آتے ہیں ، اورنگ زیب حکمراں خاندان کے سلسلے کا آدمی ہے ۔ اس نے جہاں حصول اقتدار میں اپنی قوت و حکمت کا استعمال کیا وہیں حکمراں خاندان کے سلسلے کا بھی بنیادی دخل ہے ، اس لحاظ سے شیوا جی کا معاملہ اورنگ زیب سے زیادہ حملہ آور کے طور پر نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے ، لیکن زمین پر حکمرانی اور تسلط کے دستیور و روایت کے پیش نظر بہت زیادہ کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے ، اورنگ زیب نے اپنا کام کیا اور شیوا جی نے اپنا کردار ادا کیا، اس کے تعلق سے تاریخ کی فرقہ وارانہ تعبیر و تشریح ملک و ملت کے مفاد میں قطعی نہیں ہے ، البتہ انسانی طبقات کی تمام موجودہ نسلوں کا تاریخ سے رشتہ ہوتا ہے ، ان کو تاریخ کا ناقص حصہ فراہم کرنا اور موہوم دنیا میں لے جا کر کھڑا کر دینا ان کے ساتھ بڑی زیادتی و بد خواہی ہے ، چیزوں کو بڑھا گھٹا کر دیکھنے کے ہمیشہ غلط نتائج سامنے آتے ہیں ، مزعومہ تصورات سے حقیقت کو بدلا نہیں جا سکتا ہے ، مہارانا پرتاپ اور اکبر ، شیو ا جی اور اورنگ زیب کے درمیان کئی لحاظ سے کوئی موازنہ و مقابلہ نہیں ہے ، مہارانا پرتا پ اور شیوا جی زیادہ سے زیادہ علاقائی -ملک کے ایک محدو د حصے کے حکمراں رہے تھے ، جس پر بعد میں اکبر ،اورنگ زیب وسیع غیر منقسم بھارت کے حکمراں ہوئے ، جن علاقوں اور ملک کے حصوں کو اکبر بھی زیر حکومت نہیں لا سکا تھا ان کو بھی اورنگ زیب نے زیر حکمرانی و تسلط لا کر ملک کو ایک اکھنڈ بھارت بنا دیا تھا ، سرجدو ناتھ سرکار نے گرچہ اورنگ زیب کے سلسلے میں بہت سے مقامات پر تعصب وجارحیت اور جانب داری سے کام لیا ہے ، تاہم اس کے متعلق زیادہ سے زیادہ گوش ہائے زندگی کو سامنے لانے میں سب سے زیادہ محنت و تلاش سے کام لیا ہے اور اعتراف حقیقت اور اظہار صداقت میں کوتاہی نہیں کی ہے انھوں نے اپنی کتاب کے شروع ہی میں تسلیم کیا ہے کہ اورنگ زیب کے حالات زندگی کوئی 60سال کی بھارت ورش کی تاریخ ہی ہو جاتی ہے ، اس کے زیر حکمرانی مغل سامراج کی سرحدیں اپنی آخری حد تک پہنچ گئی تھیں ، ابتدائی عہد سے لے کر برٹش سامراج کے قیام تک بھارت میں ایسے عظیم الشان سامراج کا قیام کبھی نہیں ہوا تھا۔ غزنی سے جٹائگام تک اور کشمیر سے لے کر کرناٹک تک عظیم بھارت ایک ہی حکمراں کے زیر محکوم تھا، بے مثال وسعت کے باوجود اس عظیم الشان سامراج کی سیاسی وحدت لاجواب تھی ، اسی خصوصیت کے سبب اورنگ زیب کا ہندستانی سامراج اشوک ، سمندر گیت یا ہرش کے سامراج سے کہیں زیادہ عظیم الشان اور مکمل تھا (اے شارٹ ہسٹری آف اورنگ زیب صفحہ 2باب اول مطبوعہ ہندی گرنتھ رتنا کر ممبئی 1970)
بھارت کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس قدر وسیع علاقہ اکبر کی حکومت میں شامل تھا اور نہ ہی برصغیر کی حد تک جدید دور کے عظیم برطانوی فاتحین اتنے وسیع علاقے پر اپنا جھنڈ ا بلا شرکت غیر سے لہرا سکے ، جنوبی سمندر سے شمال مغرب کی انتہاﺅں اور افغانستان تک ایک لڑی میں پرونے والا اورنگ زیب ایسا حکمراں تھا، جس کی نظیر قدیم و جدید بھارت میں نہیں ہے ، اس کے مقابلے میں شیو ا جی کو پیش کرنا ایک طرح کا تاریخی مذاق اور احساس کمتری کا از حد مبالغے کے ساتھ اظہار ہے ، اورنگ زیب کی اس خصوصیت و وسعت مملکت نے سامراجی طاقتوں ہندو تو وادی عناصر اور مخالفین کو حیرت و حسد میں مبتلا کر دیا تو دوسری طرف موافقین ششدر ہو کر رہ گئے ، اس متضاد صورت حال اور کیفیت نے اورنگ زیب کی شبیہ شیطان و فرشتہ کے طور پر بنانے کا کام کیا، اب گزرتے دنوں کے ساتھ کسی حد تک اورنگ زیب کو انسان مانا جانے لگا ہے ، آگے کا مرحلہ ، بھارت کا شہنشاہ اور ہندو مسلمان سب کے حکمراں کے طور پر سامنے آنے کا ہے ، اس سمت بھی کام کا آغاز ہو چکا ہے ، اس کی ایک بہتر مثال پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے ڈاکٹر اوم پرکاش پرشاد کی کتاب ”اورنگ زیب ، ایک نیا زاویہ نظر “ہے ، اس کے دائرے کو ہمارے با وسائل ، فکر مند ادارے وسیع کر سکتے ہیں ، تاریخ کا تاریخ کے طور پر سنجیدہ مطالعہ اور بہتر تحقیق و تعبیر کے ساتھ اسے سامنے لانا وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے ۔