امریکی حکام نے حال ہی میں اعتراف کیا ہے کہ وہ شام اور عراق میں اپنی فوج کی موجودگی کے اصل اعداد و شمار کو چھپا رہے ہیں کہ ان دونوں ملکوں میں اصلاً امریکی فوجیوں کی تعداد کیا ہے۔ذرائع کے مطابق اس کی وجہ سفارت اور سلامتی سے متعلق امریکی تشویش ہے۔
پیر کے روز پینٹاگون نے اشارہ دیا ہے کہ عراق میں 2500 کی تعداد میں فوجیوں کا عدد اس اصل تعداد کو ظاہر نہیں کرتا جو وہاں موجود ہیں۔واضح رہے پچھلے تقریباً ایک سال سے امریکی پینٹاگون کی طرف سے یہی بیان کیا جاتا رہا ہے کہ شام میں اس کے 900 فوجی اور عراق میں 2500 فوجی موجود ہیں جو داعش کے دوبارہ ابھرنے کو روکنے کے لیے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔تاہم حیران کن اطلاع پینٹاگون کے پریس سیکرٹری میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے پچھلے ہفتے دی کہ شام میں امریکی فوجیوں کی تعداد پہلے کے مقابلے میں دو گنا سے زیادہ ہو گئی ہے۔
رائیڈر کا کہنا تھا کہ یہ فوجی عارضی ضرورت کے تحت ہیں۔ تاکہ بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کی صورتحال کو دیکھا جا سکے۔پیر کے روز پیٹ رائیڈر نے کہا ‘شام میں مزید 1100 فوجیوں کو عارضی طور پر بھیجا گیا ہے۔ تاکہ وہ پہلے سے وہاں موجود اپنے فوجیوں کے تحفظ ، ان کی نقل و حرکت اور دوسری پیدا ہونے والی آپریشنل ضرورتوں کو پورا کر سکیں۔’عراق کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ عراق میں بھی پہلے سے موجود 2500 فوجیوں کے ساتھ مزید نفری تعینات کی گئی ہے۔ تاہم اپنے سفارتی و سلامتی سے متعلق امور کی حساسیت کی وجہ سے ہم ان فوجیوں کی متعین تعداد سامنے نہیں لائیں گے۔امریکی حکام کا کہنا تھا کہ فوج کی نفری میں عراق میں کیا گیا اضافہ بھی شام ہی کی طرح ہے کہ عراق میں بھی خطرات بڑھنے کا اندازہ ہے اور یہ سب باتیں باہم جڑی ہوئی ہیں۔پینٹاگون کے حکام نے اپنے ایک معمول کے اجلاس میں شام و عراق کی صورتحال کا جائزہ لیا اور بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بطور خاص اپنی تشویش کو بڑھا ہوا محسوس کیا۔ کیونکہ ترکیہ اور کرد گروپوں کے درمیان لڑائی کی اطلاعات آرہی ہیں۔