باغی گروہ ہیئت تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی کا کہنا ہے کہ اقتدار کی باضابطہ منتقلی تک عوامی ادارے وزیرِ اعظم محمد الجلالی کے ماتحت کام کرتے رہیں گے۔دمشق میں موجود تمام جنگوؤں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی جنگجو عوامی اداروں میں داخل نہ ہوں۔ انھوں نے ہوائی فائرنگ پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔باغیوں کی جانب سے صدر بشارالاسد کی شام سے فرار ہونے کے دعوے کے بعد وزیرِ اعظم محمد الجلالی نے اعلان کیا ہے کہ عوام جس کو بھی چنیں گے وہ اس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اتوار کے روز اپنے دفتر میں ہوں گے اور وہ اقتدار کی منتقلی کے کسی بھی طریقہ کار کے لیے تیار ہیں۔شام کے دو سینیئر فوجی حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ صدر بشار الاسد طیارے میں سوار ہو کر دمشق سے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئے ہیں
دریں اٹناباغی فوجیوں نے شام کو ’آزاد‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ صدر بشار الاسد ملک سے چلے گئے ہیں۔
ٹیلیگرام پر ہیت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کا کہنا ہے کہ ایک تاریک دور کا خاتمہ ہوا اور یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۔
باغیوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ بے گھر ہو گئے تھے یا اسد کے دورِ حکومت میں قید تھے، وہ اب گھر آ سکتے ہیں۔ایچ ٹی ایس کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’نیا شام‘ ہو گا جہاں ’ہر کوئی امن اور انصاف کے ساتھ رہے گا۔‘دمشق کے مرکز میں واقع اہم سرکاری اداروں جن میں وزارت دفاع اور شامی مسلح افواج کے ایک تاریخی مقام ’اموی سکوائر‘ میں تقریبات شروع ہونے کی اطلاعات ہیں۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں بلند آواز میں موسیقی کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں اور تقریباً درجن کے قریب لوگ ایک ٹینک کے گرد رقص کر رہے ہیں جسے مبینہ طور پر فوج نے چھوڑ دیا تھا۔مبینہ طور پر شام کی وزارت دفاع کے حکام نے دمشق میں واقع اپنے ہیڈ کوارٹر کی عمارت کو خالی کر دیا ہے۔
••باغی کب تک ساتھ رہیں گے؟
سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں مشرقِ وسطیٰ کے امور کی ماہر نتاشہ ہال کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں یہ بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ ہے۔جب ان سے باغیوں کے آپسی تعلقات کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا باغی گروپوں میں ’سب سے زیادہ منظم اور طاقتور‘ ہیئت تحریر الشام ہے جو ان گروہوں کی قیادت کر رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دیگر گروہوں کے مقابلے میں ہیئت تحریر الشام پر غیر ملکی طاقتوں کا اثر و رسوخ بہت کم ہے۔ ان کے مطابق دیگر باغی گروپس ترکی کے زیرِ اثر چل رہے ہیں۔نتاشہ کہتی ہیں کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ گروپس ایک دوسرے اور خصوصاً شمال مشرق میں موجود کرد گروہوں کے ساتھ کیسے ہم آہنگی برقرار رکھتے ہیں۔