تحریر: کلدیپ کمار
فی الحال کانگریس کے مستقبل کو لے کر کئی طرح کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ قیاس آرائی کرنے والوں میں کٹر مخالفین، ناقدین، حامی، کارکنان اور کانگریس کے لیڈر شامل ہیں۔ وہ نہ صرف قیاس آرائیاں کر رہے ہیں بلکہ کانگریس کو بن مانگے مشورے بھی دے رہے ہیں کہ کس کو اپنا صدر بنایا جائے اور کس کو پارٹی سے باہر کا راستہ دکھایا جائے۔ کنہیا کمار جیسے بائیں بازو اور ترقی پسند سوچ کے کئی نوجوان لیڈر بھی کانگریس میں شامل ہورہے ہیں۔ جیوترادتیہ سندھیا اور جتن پرساد جیسے نوجوان لیڈر کانگریس چھوڑ کر بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ کانگریس ریاستوں میں وزرائے اعلیٰ کو تبدیل کر رہی ہے اور بی جے پی جو کبھی اسی کام کے لیے اس پر تنقید کرتی تھی، اب وہ بھی وہی کر رہی ہے۔ اترپردیش میں انتخابات قریب ہیں۔ وہیں کانگریس 1990 سے اقتدار سے باہر ہے، لیکن اس کے تناظر میں بھی حکمراں پارٹی بی جے پی کے بعد سب سے زیادہ چرچا ہو رہا ہے، سماج وادی پارٹی یا بہوجن سماج پارٹی کا نہیں۔ پرینکا گاندھی واڈرا کے وارانسی کے دورے نے اس بحث کو مزید تقویت دی ہے۔
جو لوگ گاندھی خاندان کو کانگریس پارٹی کے لیے بوجھ سمجھتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ جیسے ہی اس بوجھ کو اتارا جائے گا وہ بدل جائے گا، وہ بڑے کنفیوژن کا شکار ہیں۔ مسئلہ گاندھی خاندان کا نہیں ہے، یہ کانگریس میں مضبوطی سے جڑی ہوئی جمہوریت مخالف ثقافت ہے، جس کا منطقی طور پر فرد کی عبادت یا ایک خاندان کی عبادت ہوتی ہے۔ بی جے پی اپنی اجتماعی قیادت پر فخر کرتی تھی۔ لیکن آج اس میں انفرادی عبادت کانگریس سے زیادہ ہے۔ بی جے پی نے کانگریس کلچر کو اپنایا ہے، اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ کانگریس خود کو اس کلچر سے آزاد کرے اور صحیح معنوں میں بی جے پی کے متبادل کے طور پر ملک کے سامنے آئے۔ اس کے لیے اسے اپنی تاریخ سے سبق سیکھنا ہوگا۔
مہاتما گاندھی کی شدید مخالفت کے باوجود سبھاس چندر بوس 1939 میں کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ مہاتما گاندھی کے بعد جواہر لعل نہرو برطانوی استعمار کے خلاف تحریک آزادی کے سب سے مقبول رہنما تھے۔ لیکن وہ کانگریس کے اندر کبھی بھی غیر متنازع لیڈر نہیں رہے۔ 1951 میں وہ وزیر اعظم بھی تھے، لیکن ان کی شدید مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے، پارٹی نے پرشوتم داس ٹنڈن کو اپنا صدر منتخب کیا۔ بوس اور ٹنڈن کو بالترتیب مہاتما گاندھی اور نہرو کے عدم تعاون کی وجہ سے منتخب ہونے کے کچھ ہی عرصے میں استعفیٰ دینا پڑا، لیکن یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ گاندھی اور نہرو جیسے رہنماؤں کی شدید مخالفت کے باوجود وہ پارٹی کے اندرونی انتخاب جیتنے میں کامیاب رہے ۔ 1972 میں چندر شیکھر بھی اندرا گاندھی کی مخالفت کے باوجود کانگریس کی سینٹرل الیکشن کمیٹی کےلیے منتخب ہوگئے تھے ۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب پارٹی کے اندر کھل کر بولنے کی آزادی ہو، لیڈروں کی خوشامد اور چمچہ گری کم ہو اور کسی ایک شخص یا گروپ کا پارٹی پر قبضہ نہ ہو۔ کیاآج کی کانگریس پارٹی ایسی ہے ؟
جیسے ہی کانگریس تحریک کرنےوالی پارٹی سے اقتدار والی پارٹی بنی۔ اس کےاندر گروپ بندی اور بدعنوان اور زیادہ تیزی سے پنپنے لگے۔ 12 جنوری 1948 کو مہا تما گاندھی نے پر دعائیہ اجلاس میں اعلان کیا کہ وہ اگلے دن سے انشن پر بیٹھنے جارہے ہیں۔ اعلان کرنے سے پہلے انہوں نے آندھرا کے ایک بہت ہی سینئر کانگریسی لیڈر پیٹریاٹ کونڈا وینکٹپایا کا ایک خط بھی پڑھا جس میں انہوں نے کانگریس کے اندر بڑھتے ہوئے ان رجحانات کا ذکر کیا اور کہا کہ اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ برطانوی راج اس سے بہتر تھا۔
گاندھی-بوس، نہرو-پٹیل اور نہرو-ٹنڈن کے درمیان ٹکراؤ شخصی ٹکراؤ نہیں تھا، جیسا کہ آج کل ہندوتوا کےپرچارک الزام لگاتے ہیں ۔ وہ پالیسیوں کا ٹکراؤ تھا۔ 1969 میں جب اندرا گاندھی نے کانگریس کو الگ کردیا تب بھی ان کا دائیں بازو پالیسی کی جانب جھکاؤ دائیں باز و سوچ کے مورار جی دیسائی جیسے لیڈروں کو ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ لیکن بعدمیں جس طرح سے انہوں نےپارٹی اور سرکار میں طاقت کو مرکزیت دی ، اپنے صلاحکاروں کے چھوٹے سے گروپ کے زیر اثر ریاستوںمیں من مانی طور پر وزیر اعلیٰ بدل دئے اور ان کے انتخاب کا اختیار اپنے ہاتھ میں لیا،یہ یقین دلانےکے لیے ریاستوںمیں گروپ بندی کو بڑھاوا دیا کہ کوئی بھی لیڈر قد آور بن سکے اور آخر کار دیوکانت باروا جیسے شخص کو پارٹی صدر بنایا جنہوں نے ’بھارت اندرا ہے اوراندرا بھارت ہے ‘‘ جیسے افکار تخلیق کیا۔ اس نے کانگریس کو اندر سےکھوکھلا کردیا۔
ہم وزیر اعظم نریندر مودی کی تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے آج تک ایک بھی پریس کانفرنس سے خطاب نہیں کیا۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ سونیا گاندھی نے حکمران جماعت اور اپوزیشن پارٹی کی صدر کے طور پر کتنی بار پریس کانفرنس سے خطاب کیا یا میڈیا والوں کو انٹرویو دیا؟ اس کا عوام یا اپنی پارٹی کے اراکین، کارکنوں اور رہنماؤں سے کتنا اور کس قسم کا رابطہ ہے؟ کیا اس نے درباری کلچر کو بڑھایا یا کم کیا؟ انہوں نے حال ہی میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کو تبدیل کرکے پارٹی اور عوام کو کیا پیغام دیا ہے؟
یہی بات راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی واڈرا پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ نہرو کی سیاسی میراث سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ انہیں نہرو کی نظریاتی میراث کو بھی قبول کرنا چاہیے۔ نہرو ایک خالص برہمن تھے اور دنیا انہیں پنڈت نہرو کہتی تھی۔ انہیں یہ کہنے کی کبھی ضرورت نہیں تھی کہ وہ برہمن ہیں اور جنیودھری ہیں۔ بلکہ اگر کوئی ان کے تعارف میں یہ بات کہتا تو وہ ان کے غصے کا شکار ہوتا، لیکن راہل کے سپاہ سالار انہیں ’’جنیودھری شیو بھکت‘‘ کے طور پربتاتے ہیں ۔ ہلکے رنگ سے گاڑھا رنگ کا مقابلہ کرنےکی سیاست کے سہارے کانگریس آگے نہیں بڑھ سکتی ۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور تبصرہ نگار ہیں)