تحریر: ڈاکٹر مبارک علی
فرانسیسی انقلاب اور صنعتی انقلاب نے جب یورپ کے معاشرے کو بدلا تو اس کے دانشوروں اور حکمرانوں نے اس بات کی کوشش کی کہ قدیم نظام کی جگہ اور فرسودہ روایات سے نجات پانے کے لیے نئے نظریات کی تشکیل کریں۔ اسی پس منظر میں قوم پرستی، سیکولرازم اور سوشل ازم کے نظریات پیدا ہوئے، جن کی بنیادوں پر ایک نیا معاشرہ ابھرا۔
پہلی عالمی جنگ نے یورپی معاشروں کو کئی بحرانوں میں مبتلا کر دیا تھا۔ اس جنگ کے باعث فاتح اور شکست خوردہ قومیں دونوں ہی متاثر ہوئیں، جس کی وجہ سے خاص طور سے اٹلی اور جرمنی میں اہم تبدیلیاں آئی تھیں۔
اس مرحلے پر 1917ء میں روسی انقلاب آچکا تھا جو معاشرے کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کا دعویدار تھا، چونکہ روس کا انقلاب سرمایہ داری کے خلاف تھا۔ اس لیے خاص طور سے اٹلی اور جرمنی کا بورژوا طبقہ اس انقلاب کو روکنا چاہتا تھا۔
ایک حلقے کا خیال ہے کہ اسی لیے روسی انقلاب کے اثرات سے بچنے کی خاطر ایک متبادل نظریے کی سرپرستی کی گئی۔ اٹلی میں اسے فاشزم کا نام دیا گیا جبکہ جرمنی میں نیشنل سوشلسٹ پارٹی کے تحت یہ نازی کہلایا، فاشزم اور نازی ازم میں بہت سی باتیں مشترک تھیں اور اختلافات بھی تھے۔
ہم یہاں پر پہلے فاشزم کے نظریے کی چند اہم بنیادوں کا ذکر کریں گے تاکہ ان کی روشنی میں اٹلی اور جرمنی کی سیاست کو سمجھا جا سکے۔ آسان الفاظ میں میں کہا جا سکتا ہے کہ فاشزم ایک ایسی سیاسی تحریک ہوتی ہے، جس میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات کو قوم پرستی سے جوڑ دیا جاتا ہے جبکہ کسی بھی اپوزیشن کو بہ زور طاقت کچل دیا جاتا ہے۔
-1 فاشزم اور نازی ازم میں ان کے لیڈروں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ایسی کسی بھی تحریک کا رہنما خود پسند تو ہوتا ہی ہے لیکن ساتھ میں خود کو عقل کل اور عوام کا نام نہاد نجات دہندہ تصور کرتا ہے۔ جیسا کہ ہٹلر اور موسولینی نے خود کو جو القابات عطا کیے وہ ان کی شخصیت کو مقدس اور باوقار بنانے کی ایک ناکام کوشش تھے۔ جیسے موسولینی نے اپنے لیے گریٹ لیڈر اور ہٹلر نےFührer یعنی رہنما کا انتخاب کیا۔ ان دونں رہنماؤں کے ادوار میں فاشزم کے اہم نکات درج ذیل رہے۔
-2 ریاست کا ادارہ بے انتہا طاقتور تھا، جبکہ انفرادی آزادی ختم ہو گئی تھی۔
-3 ایک ہی سیاسی پارٹی کی حکومت ہوتی تھی۔
-4 کسی کو ریاستی یا سیاسی آزادی نہیں تھی۔
-5 لوگوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے شاندار ماضی کو ابھارا جاتا تھا۔
-6 جمہوری روایات کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ اس کی جگہ آمرانہ طرز حکومت قائم ہو گئی تھی۔
-7 اگرچہ فاشسٹ حکومت مذہبی معاملات میں دخل تو نہیں دیتی تھی مگر مذہب کے تسلط کو بھی ختم کر دیا جاتا تھا اور سیکولر روایات کو فروغ دیا تھا۔
-8 تعلیم پر ریاست کی اجارہ داری تھی اور نوجوان نسل فاشسٹ نظریے کے تحت قوم پرستی کے جذبے سے سرشار ہوتی تھی۔
-9 فاشسٹ حکومت جنگ کو بطور ہتھیار استعمال کر کے اس کے ذریعے اپنے اقتدار کو مستحکم کرتی تھی۔
-10 فاشسٹ حکومت کے تحت ادب، آرٹ، سائنس اور سماجی علوم کے لیے لازمی تھا کہ وہ اس کے نظریات کی تبلیغ کرے۔ دانشوروں کا بھی یہ فرض تھا کہ اپنی تخلیقات کے ذریعے خیالات کو لوگوں تک پہنچائیں۔
-11 فاشسٹ حکومت خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے لوگوں کی نگرانی کرتی تھی اور مخالفوں کو قید و بند کی سزائیں دی جاتی تھیں۔
فاشسٹ اٹلی کا ظہور
اب یہاں ہم اٹلی کا ذکر کریں گے، جہاں 1922ء میں موسولینی نے اپنی پارٹی کے رضاکاروں کے ساتھ روم پر حملہ کر کے اپنی حکومت قائم کر لی۔ ابتدائی دور میں اس کی حکومت کا خیر مقدم کیا گیا کیونکہ اس نے امن و امان قائم کیا اور بنیادی مسائل حل کر کے عوام کی حمایت حاصل کی۔
اس نے اٹلی کے عوام کو یہ تاثر دیا کہ وہ رومی سلطنت کا وارث ہے اور وہ ماضی کی عظمت کو دوبارہ سے بحال کرے گا۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے اس نے رومی سلطنت کی تاریخ پر کئی کانفرنسیں کرائیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے لیبیا اور ایتھوپیا پر بھی حملے کیے، تاکہ ان ملکوں کو اپنی سلطنت میں شامل کر لے۔ لیبیا میں تو اسے کامیابی ہو گئی مگر ایتھوپیا میں وہ ناکام رہا۔
ایک حلقہ یہ بھی کہتا ہے کہ اٹلی کے فاشزم کا ایک مقصد یہ تھا کہ سرمایہ دار طبقے کو تحفظ دیا جائے اور روسی انقلاب کے اثرات کو روکا جائے۔ امریکا کے مشہور شاعر Azra Pound نے فاشسٹ حکومت کی حمایت کی۔ اس کا جواز یہ تھا کہ اس کے تحت وہ بورژوا طبقے کو کمزور کر کے عوام کے لیے راستہ صاف کرے گا۔
اڈولف ہٹلر کے نظریات
جرمنی میں نازی پارٹی کا عروج بھی انہی سیاسی حالات کی وجہ سے ہوا۔ پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد جرمنی کی ریاست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھی۔ ورسائی معاہدے کے تحت وہ اپنے سرحدی علاقوں سے بھی محروم ہو گئی تھی جو فرانس کو دیے گئے تھے۔ افریقہ میں اس کی کالونیز بھی اس سے چھین لی گئی تھیں۔ جنگ میں مجرم ہونے کی وجہ سے اس پر جرمانے عائد کئے گئے تھے، جس کی وجہ سے معاشرہ افراط زر کا شکار تھا۔
جرمنی میں نازی پارٹی کا عروج بھی انہی سیاسی حالات کی وجہ سے ہوا۔ پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد جرمنی کی ریاست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھی۔ ورسائی معاہدے کے تحت وہ اپنے سرحدی علاقوں سے بھی محروم ہو گئی تھی جو فرانس کو دیے گئے تھے۔ افریقہ میں اس کی کالونیز بھی اس سے چھین لی گئی تھیں۔ جنگ میں مجرم ہونے کی وجہ سے اس پر جرمانے عائد کئے گئے تھے، جس کی وجہ سے معاشرہ افراط زر کا شکار تھا۔
سیاسی طور پر کمیونسٹ پارٹی اور دائیں بازو کی پارٹیوں میں تصادم تھا۔ جنگ میں شکست کے بعد جرمن قوم کا فخر اور غرور ختم ہو گیا تھا۔ اس لیے جرمن قوم میں یہ جذبہ تھا کہ وہ اس بحران سے نکل کر دوبارہ سے باعزت مقام حاصل کرے۔ اس مرحلے پر نیشنل سوشلسٹ پارٹی کا قیام عمل میں آیا جو بعد میں نازی پارٹی کہلائی۔
جب ہٹلر اس کا راہنما بنا تو پارٹی کی یہ کوشش تھی کہ طاقت کے ذریعے ریاست پر قبضہ کرے۔ تب ہٹلر اور اس کے کچھ ساتھیوں نے 1923ء میں ریاست پر قبضے کی کوشش کی، مگر انہیں اس میں ناکامی ہوئی اور ہٹلر کو قید کی سزا ہوئی۔ اسی قید کے دوران اس نے اپنی کتاب ’’میری جدوجہد‘‘ لکھی جس میں اس نے یہودیوں اور کمیونسٹوں کو جرمنی کا دشمن قرار دیا۔
اس کے بعد نازی پارٹی نے اس بات کی طرف توجہ دی کہ جمہوری طریقے سے الیکشن لڑ کر اقتدار میں آیا جائے۔ لہٰذا 1933ء کے الیکشن میں نازی پارٹی نے انتخاب لڑنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا وہ یہ تھا کہ ہٹلر روزانہ دوچار شہروں میں جا کر لوگوں سے خطاب کرتا تھا، اور ان کی محرومیوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا تھا۔
پارٹی کے کارکنوں کا طریقہ کار یہ تھا کہ اجلاس کسی بڑے ہال کے بجائے چھوٹے ہال میں ہو تاکہ وہ لوگوں سے بھر جائے اور کچھ لوگ باہر کھڑے ہو کر بھی اس کی تقریر کو سنیں۔ وہ جلسے میں دیر سے آتا تھا تاکہ لوگ انتظار کریں۔ اس کی تقریروں میں جنگ میں شکست کی وجہ سازش قرار دی جاتی تھی۔ جرمنی پر جو جرمانہ عائد کیا گیا اسے ہٹلر ناانصافی قرار دیتا تھا اور یہ عہد کرتا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد اس کی پارٹی امن و امان قائم کرے گی لوگوں کو بنیادی سہولتیں دے گی اور جرمنی کے وقار کو دوبارہ سے بحال کرے گی۔
اقتدار پر مکمل قبضہ
1933ء کے الیکشن میں نازی پارٹی کامیاب ہوئی اور جرمن کے صدر پاؤل فان ہنڈنبرگ نے ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر مقرر کر دیا۔ سن انیس سو چونتیس میں ہنڈنبرگ کی وفات کے بعد ہٹلر نے سیاسی چالیں چل کر صدارت پر قبضہ کرلیا اور اس کی نازی پارٹی مکمل طور پر اقتدار میں آ گئی۔ اس کے بعد کوئی الیکشن نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی دوسری سیاسی پارٹی کو ابھرنے کا موقع دیا گیا۔
اقتدار میں آنے کے بعد ہٹلر نے جرمنی کے سیاسی اور معاشی بحرانوں پر قابو پانے کے منصوبوں پر عمل کیا۔ تاہم تب ان ترقیاتی منصوبہ جات کے پیچھے اس کے مجرمانہ عزائم واضح نہ ہو سکے تھے۔ اس نے سب سے پہلے تو ورسائی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جرمنی کی فوجی طاقت کو مضبوط کیا۔ اس کے بعد جرمنی کا وہ علاقہ جو فرانس کے قبضے میں تھا اسے فوجی طاقت کی مدد سے واپس لیا۔
اس کے بعد ہٹلر نے معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے مزید اقدامات اٹھائے مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا، سال میں ان کے لیے چھٹیاں مقرر کیں تاکہ وہ زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اشیاء خوردونوش کی قیمتیں مستحکم کیں اور یہ پروگرام بنایا کہ ہر جرمن کو ایک فولکس ویگن کی گاڑی دی جائے گی۔ پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا، جس کی وجہ سے لوگوں میں باہمی رابطے بڑھ گئے۔ تعلیم کو چرچ کے تسلط سے نکال کر سیکولر بنایا، لیکن مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہیں کی۔ اس سب ترقیاتی منصوبہ جات میں بالخصوص یہودیوں اور دیگر نسلی اقلیتی گروپوں کا نہ صرف لوٹا گیا بلکہ ان سے بیگار بھی لی گئی۔
ایک طرف ہٹلر غیر محسوس طریقے سے ہولو کوسٹ کی تیاری میں تھا تو دوسری طرف پارٹی کو منظم کرنے کے لیے نوجوانوں پر مشتمل تنظیمیں بنائیں جب یہ نوجوان مخسوص نازی وردی میں ملبوس نازی پارٹی کے نظریے سے متاثر ہو کر اور قوم پرستی کے جذبے سے جب جلوس نکالتے تھے تو دیکھنے والے بھی اس سے متاثر ہوتے تھے۔ نازی پارٹی نے میڈیا کو اپنے حق میں خوب استعمال کیا اور ہٹلر کو ایک ایسا راہنما ثابت کیا جو جرمنی کی عظمت رفتہ کو بحال کرے گا۔
ان حالات سے متاثر ہو کر جرمن قوم جو پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھی اور جسے معاشی بحران نے احساس محرومی سے دوچار کر دیا تھا۔ اس بدلتی صورتحال نے اس میں ایک نیا قومی جذبہ پیدا کر دیا اور اب جرمنوں کا کہنا تھا کہ ہم اپنا سر فخر سے بلند کر سکتے ہیں۔ اس مرحلے پر چرچل نے لندن ٹائمز میں ایک خط شائع کیا جس میں ہٹلر کی تعریف اور توصیف کی اور یہ بھی لکھا کہ اگر وہ جرمنی میں ہوتا تو مکمل طریقے سے ہٹلر کی حمایت کرتا۔
یہاں اکثر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی معاشرے کو جمہوری اصلاحات کے ذریعے پسماندگی سے نکالا جا سکتا ہے یا اس کے لیے زرعی آمرانہ اور فاشزم کے طریقوں کو استعمال کرنا چاہیں۔
انگریز مورخ لیڈل ہارٹ نے اپنی کتاب "Why don`t we learn from history” (میں نے اس کتاب کا اردو ترجمہ بعنوان ہم تاریخ سے کیوں نہیں سیکھتے کیا ہے) میں یہ دلیل دی ہے کہ جمہوری طریقوں سے کسی بھی سوسائٹی کو بہت جلد درست نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو متفق کرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن آمرانہ حکومت میں آمر فیصلے کر کے ان کو بطور طاقت فوری طور پر نافذ کرتا ہے۔
ہٹلر کے سامراجی عزائم
جرمنی میں ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی نے ریاست کے اداروں کو استعمال کر کے اپنے تمام منصوبوں کو پورا کیا۔ خفیہ ایجنسی گسٹاپو کے ذریعے لوگوں پر نظر رکھی کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی سازش کر سکیں۔ نازی پارٹی کے فوجی دستے منظم کیے گئے۔ جنہوں نے عوام میں خوف اور دہشت کو پھیلایا اور انہیں خاص طور پر یہودیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ جب ہٹلر نے جرمنی کو اندرونی طور پر طاقتور بنا دیا تو اس کے سامراجی عزائم ابھر کر سامنے آئے۔ وہ روس سمیت پورے یورپ پر ہی قبضہ کا خواہاں تھا تاکہ بڑھتی ہوئی جرمن آبادی کو دیگر علاقوں میں آباد کیا جا سکے، لیکن یہ منصوبے بغیر جنگ کے پورا نہیں ہو سکتے تھے۔
ہٹلر انگلستان کا بڑا مداح تھا کہ جس نے ہندوستان جیسے وسیع ملک پر اپنا سیاسی اقتدار قائم کر لیا تھا۔ اذیتی مراکز کا خیال بھی اسے کیوبا، امریکا اور جنوبی افریقہ سے آیا کہ جہاں انگلستان نے Boers کو کیمپوں میں محصور کیا تھا۔ 1942ء میں انگریزی فوج نے سندھ میں ہر بغاوت کو کچلنے کے بعد انہیں بھی کیمپوں میں محصور کر دیا تھا۔
ہٹلر نے یہودیوں، کمیونسٹوں اور خانہ بدوشوں کو کیمپوں میں قید کر کے ان کا قتل عام کیا، بے شک ایسے مجرمانہ واقعات پہلے بھی ہوئے لیکن جو تباہی نسل اور قوم پرستی کی بنیاد پر ہٹلر نے کی، ماضی میں اس کا کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ کہنا غلط نا ہو گا کہ ہٹلر ایک ایسی احساس محرومی کا شکار ذہنی مریض، نسل پرست اور قوم پرست تھا، جس نے یہ سوچا ہی تھا کہ اس کے سامراجی عزائم پورے یورپ کو ہی تباہ کر سکتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ میں نہ صرف جرمنی کو شکست ہوئی بلکہ ہٹلر کو بھی خود کشی کرنا پڑی۔ دوسری جانب اٹلی میں موسولینی کی حکومت بھی ناکام ہوئی اور لوگوں نے اسے قتل کر کے اس کی لاش کو الٹا لٹکا دیا۔ خود کو عوام کا نجات دہندہ قرار دینے والے ان خود پسند رہنماؤں کی ہزیمت آمیز موت پوری دنیا میں باشعور لوگوں کے لیے ایک عبرت کا نشان قرار دی جاتی ہے۔ وہ خود تو رسوائی کا شکار ہو کر مرے لیکن یورپی معاشروں کو بھی تباہ کر گئے۔
تیسرا فاشسٹ ملک اسپین تھا جہاں فرانکو (d.1975) نے ہٹلر اور میسولینی کی مدد سے سپین کی اس رپبلک حکومت کا خاتمہ کیا،جیسے کمیونسٹوں نے قائم کیا تھا اور اپنے مرنے تک اس نے سپین کو فاش ازم کے تسلط میں رکھا۔
ہم نے کیا سیکھا؟
اس مطالعے سے ہم پر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ فاشزم کے ذریعے کبھی بھی کسی سوسائٹی کو مضبوط اخلاقی بنیادوں پر مستحکم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اٹلی اور جرمنی میں جہاں فاشسٹ حکومتیں آئیں، انہوں نے ادب، آرٹ، موسیقی کو پارٹی کی نگرانی میں دے کر ان کی صلاحیتوں کو ختم کر دیا۔
موجودہ زمانے میں اب فاشزم کی اصطلاح کو وسیع معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح اب ان آمروں کے بارے میں بھی استعمال ہوتی ہے جنہوں نے تمام اختیارات کو اپنی ذات میں جمع کر کے فوجی طاقت اور خوف کے ذریعے لوگوں پر حکومت کرتے ہیں۔
خاص طور سے جب ایشیا اور افریقہ کے ملک آزاد ہوئے تو ان کے راہنماوں نے جمہوریت کے بجائے آمرانہ طرز حکومت کو اختیار کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک یہ تمام ملک بحرانوں کا شکار ہیں اور ان کے عوام غربت اور مفلسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
پاکستان میں بھی فوجی آمروں کی وجہ سے جمہوری روایات فروغ نہیں پا سکیں اور کوئی آمر ایسا نہیں ہوا جو اپنی ذات سے بلند ہو کر معاشرے کی اصلاح کرے جیسا کہ ترکی میں مصطفی کمال نے کیا تھا یا جو مہاتیر محمد نے ملائیشیا میں کیا اور لی کوان یو نے سنگاپور میں۔
معاشرے فاشزم اور آمرانہ طریقہ حکومت کی بنیاد پر ترقی نہیں کر سکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کو بھی تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: ڈی ڈبلیو)