تحریر : شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )
شاہ رخ خان کے ،جنہیں کنگ خان بھی کہا جاتا ہے ،23 سالہ بیٹے نے پورے چار ہفتے یا باالفاظ دیگر پورا ایک مہینہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارا ۔ اگر آرین خان، شاہ رخ خان کا بیٹا نہ ہوتا ، اگر اس کی حیثیت مکل روہتگی ، امت دیسائی اور ستیش مانے شندے جیسے ،ملک کے اعلیٰ ترین وکلاء کی، خدمات حاصل کرنے کی نہ ہوتی، اگر اس کے لیے بڑے پیمانے پر میڈیا میں آوازیں نہ اٹھتیں ،اور اس کے گھر ’ منت‘ کے باہر چاہنے والوں کی بھیڑ نہ امڈ پڑی ہوتی ،تو کیا ہوتا ؟ اس سوال کا جواب مشکل نہیں ہے ،اس کے ساتھ بھی وہی ہوتا جو اس ملک کے اکژمسلم اور دلت نوجوانوں کے ساتھ ہو رہا ہے ،وہ بھی جیل کی سلا خوں کے پیچھے سڑتا،اور کسی تنظیم ،جماعت یا کسی حقوق انسانی کے ادارے کی قانونی امداد کا منتظر رہتا۔ سارا منظر نامہ تیار تھا ، تمام مہرے مستعد تھے اور منصوبہ بندی مکمل تھی کہ اسے اس طرح سے ’فٹ ‘ کرو کہ یہ لمبے عرصے تک باہر نہ آنے پائے ۔
میںآرین خان کے معاملہ پر نظر ڈالتا ہوں تو وہ نوجوان یادآنے لگتے ہیں جنہیں اس طرح سےجھوٹے معاملات میں ’فٹ ‘ کیا گیا ،یا ’ ملوث ‘ کیا گیا کہ جب وہ ’باعزت بری ‘ ہوئے ،یا ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر انہیں قید و بند کی زندگی سے چھٹکارہ ملا تو ان کی زندگیوں کے دس سے پندرہ اور بیس قیمتی سال اُن سے چھن چکے تھے ۔یہ ’ آزادی ‘ کے حق کو چھیننے کا کس قدر بے رحمانہ طریقہ ہے! کیا لوگوں کو محمد عامر خان کا نام یاد نہیں ہے !جب دہلی کی پولیس نے اسے ،ایک نہیں دہشت گردی کے اٹھارہ معاملات میں ’ فٹ‘ یا ’ ملوث ‘ کیا تھا ،تب وہ 18 ،سال کا تھا ،اسے پورے ۱۴ ، سالوں کے بعد بری کیا گیا ،اور اس پر جو بیتی اس کا معاوضہ اسے 5لاکھ روہیے ملا۔اس نے اپنے ایک بیان میں بالکل درست کہا ہے کہ ’’ کیا یہ 5 لاکھ روپیے میری زندگی کے ۱۴ برس مجھے لوٹا سکتے ہیں ؟‘‘ ۔صرف ایک محمد عامر نہیں ہے ،کتنے ہی محمد عامر پولیس ، ایجنسیوں اور فرقہ پرست انتظامیہ و انتہائی متعصب ذہنیت رکھنے والے سیاست دانوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھےہیں ۔ مفتی عبدالقیوم کی مثال لے لیں : 2002ء میں گجرات کے اکثردھام مندر پر ایک دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا ( یہ حملہ آج تک مشکوک ہے) اس حملے کی منصوبہ بندی کے لیے مفتی عبدالقیوم اور چند دیگر افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ،پورے گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے گزارنے کے بعد مفتی صاحب کو عدالت نے بری کیا تھا ،ان کے خلاف کوئی ایک ثبوت نہیں مل سکا تھا ۔
معاملہ وزیراعظم نریندر مودی کے گجرات کا تھا ، اس میں گجرات کا ایک ایسا پولیس افسرڈی جی ونجارا ملوث تھا ،جس پر کئی فرضی مڈبھیڑوں کے الزامات لگے ہیں ،اس کا نام ممبرا کی ایک مسلم طالبہ عشرت جہاں کے ’ فرضی مڈبھیڑ ‘ میں بھی شامل ہے( اس معاملہ میں ونجارا گرفتار ہوا تھا ، مگر کہا جاتا ہے کہ سیاسی آقاؤں نے اسے بچا لیا) ۔اکژدھام مندر حملہ ،سیاست دانوں کے لیے، سیاسی مفادات کے حصول کا اور پولیس والوں کے لیے ،ترقی کی منزلیں طے کرنے کا،ایک ذریعہ بن گیا تھا ،یا شاید اسی مقصد کے لیے یہ حملہ ہوا تھا ۔مزید نظر ڈالیں :بات دسبمبر ۲۰۰۱ء کی ہے ،جب گجرات کے سورت شہر میں ایک سمینار میں شرکت کے لیے آنے والے نوجوانوں کو دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ۔گرفتارشدگان کی تعداد ۱۲۷ تھی ، ان پر ممنوع تنظیم ’ اسٹوڈنٹ اسلامک مومنٹ‘ ( سیمی ) سے تعلق کا الزام تھا ،ان کی زندگیاں گرفتاری کے بعد جہنم بنا دی گئیں ۔ سورت کی ایک عدالت نے ۱۹ سال کے طویل عرصے کےبعد، مارچ 2021 ء میں سب کو بری کردیا ،جج نے اپنے فیصلے میں کہا ’’ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں قطعی ناکام رہا ہے کہ ان سب کا کوئی تعلق سیمی سے ہے لہذٰا ان سب کو بری کیا جاتا ہے ۔‘‘ بری ہونے تک ۱۲۷ ’ ملزمین ‘ میں سے پانچ کا انتقال ہوچکا تھا ۔ اس معاملہ میں پھنسائے جانے والے محمد عبدالحی کی عمر آج 66 سال ہے ،وہ ایک اسوسی ایٹ پروفیسر تھے لیکن اس طویل مقدمے کی وجہ سے انہیں ترقی نہیں ملی ۔55سالہ آصف اقبال سورت میونسپل کارپوریشن میں پرائمری ہیلتھ کیئر ورکر تھے ،انہیں پہلے معطل کیا گیا پھر برخاست کر دیا گیا ،ان کا کہنا ہے کہ ’’ میری زندگی برباد کر دی گئی ۔‘‘
فہرست بہت طویل ہے ۔جمعیۃ علما ءمہاراشٹرا ( ارشد مدنی) کی لیگل کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کا کہنا ہے کہ بہت سارے لوگ ہیں جو ’ ملوث ‘ کیے گئے ،پھنسائے گئے اور ان کی زندگیاں برباد کر دی گئیں ،اگر انہیں ہماری قانونی امداد نہ ملتی تو شاید وہ جیل ہی کے اندر آخری سانس لیتے ۔‘‘ اگر کوئی ان بے بسوں کے پیچھے قانونی امداد کے لیے نہ ہو تو اندازہ کر لیں کہ ان کی زندگیاں کس قدر تاریک بن سکتی ہیں ۔ جمعیتہ لیگل کمیٹی کے ایک نوجوان وکیل شاہد ندیم نے ، شاہ رخ خان کے بیٹے آرین کو ملی ضمانت کے تناظر میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ’’ اتر پردیش کے بستی ضلع کا ایک نوجوان رضوان داعش سے مبینہ تعلق کےلیے گرفتار کیا گیاتھا ،اس کی ضمانت کی درخواست پر ہائی کورٹ میں بحث ختم ہو چکی ہے اور جج نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے ،اسے بھی ایک مہینہ گزر چکا ہے ، اب تک وہ فیصلہ سنایا نہیں گیا ہے ۔‘‘ انہوں نے ایک اور افسوس ناک پہلو کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کو طول دیا جاتا ہے ،’’ داعش سے مبینہ تعلق کے الزام میں اقبال احمد کبیر احمد ساڑھے پانچ سال تک جیل میں رہا ،ابھی کوئی دو مہینے قبل اسے ضمانت پر رہائی ملی ہے ۔اس کی درخواست ضمانت پر سات آٹھ مہینے تک سماعت چلتی رہی ،اسی طرح ایک اور نوجوان رئیس احمد داعش سے مبینہ تعلق کے الزام میں ڈھائی سال سے سلاخوں کے پیچھے ہے ،اس کی درخواست ضمانت پر ڈھائی سال سے سماعت ہو رہی ہے ، کبھی سرکاری وکیل نہیں آتا تو کبھی کوئی اور اڑچن سامنے کھڑی کر دی جاتی ہے ۔‘‘ یہ حال ہے ہماری عدلیہ کا ! کہا جاتا ہے کہ عدالتوں پر بڑا بوجھ ہے ،جج صاحبان بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ عدالتیں کتنا کام کرتی ہیں ، جج صاحبان مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے کتنی جد و جہد کرتے ہیں ! اب یہی دیکھ لیں کہ اس ’ ڈیجیٹل انڈیا ‘ میں ضمانت دے دی گئی ہے ،یہ اطلاع تک ہاتھ سے دی جاتی ہے ۔اگر ای میل کے ذریعے آرین خان کو ملنے والی ضمانت کی دستاویز جیل حکام کو بھیج دی جاتی تو اسے مزید ایک رات جیل میں نہ گزارنا پڑتی۔کیا اس طرح سے مقدمات کا بوجھ کم ہو سکتا ہے! نہیں ۔ ہم لاکھ ’ ڈیجیٹل انڈیا ‘ کا نعرہ لگائیں اس کا کوئی اطلاق عدالتی مسائل کے حل کے لیے نظر نہیں آ رہا ہے ۔
بات کہیں سے کہیں نکل گئی ،ذکر آرین خان کا تھا،جسے پورے ایک مہینے کے بعد ضمانت پر رہائی ملی ہے۔یہ کیس ایک مثال بن گیا ہے ،یہ بتاتا ہے کہ ایجنسیاں اور پولیس افسران اگر کسی کو ’ سبق ‘ سکھانے پر آئیں تو کس کس طرح سے اُسے مقدمہ میں الجھا سکتے ہیں،بلی چڑھا سکتے ہیں ۔نارکوٹکس کنٹرول بیورو( این سی بی ) کے زونل ڈائریکٹر سمیر وانکھیڈے پر ، جنہیں مہاراشٹرا کے اقلیتی امور کے وزیر اور این سی پی کے قومی ترجمان نواب ملک ،سمیر ’ داؤد‘ وانکھیڈے کہتے ہیں ،لگے الزامات سنگین ہیں ۔بات صرف اس الزام کی نہیں ہے کہ انہوں نے سرکاری نوکری پانے کے لیے اپنے ’ برتھ سرٹیفیکیٹ ‘ سے چھیڑ چھاڑ کی ،مسلمان ہوتے ہوئے خود کو ’ دلت ‘ لکھوایا اور ایک دلت کا حق مار کر ملازمت حاصل کی ،بلکہ افسوس ناک یہ الزامات ہیں کہ انہوں نے فرضی کیس بنائے اور ہفتہ وصولی کے لیے بڑے بڑے لوگوں کو ،بالخصوص فلمی دنیا کے لوگوں کو ہراساں کیا ۔ آرین خان کے معاملہ میں کئی انکشافات ہوئے ہیں ۔پتہ چلا ہے کہ آرین خان کو پکڑ کر جو شخص کرن گوساوی این سی بی کے آفس لے جا رہا تھا وہ ’ پنچ گواہ ‘ تھا! بھلا پنچ گواہ کب سے پولیس اہلکاروں کا کردار نبھانے لگے ہیں ؟ یہی نہیں این سی بی کے دفتر میں اس نے آرین کے ساتھ سیلفی لی اور موبائل پر اس کی کسی سے بات کرائی! کیا این سی بی کسی گواہ کو اس قدر اختیارات دیتی ہے؟ مزید یہ کہ اس پر پہلے سے دھوکہ دھڑی کے معاملات تھے ، نیز وہ پہلے بھی این سی بی کا گواہ بن چکا تھا ! تو کیا این سی بی کو اور گواہ نہیں مل رہے تھے؟ کرن گوساوی کو وانکھیڈے نے جو چھوٹ دے رکھی تھی اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، خاص کر اس لیے کہ نواب ملک نے صاف صاف وانکھیڈے پر ’ ہفتہ وصولی ‘ کا الزام لگایا ہے۔ اور اس وصولی معاملہ میں شک ہے کہ گوساوی ’ بیچ کا آدمی ‘ یا ’ دلال ‘ تھا۔ اب یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ ایک ہیکر کی خدامات حاصل کرنے اور آرین خان کے واٹس ایپ چیٹس کو اس کے ذریعے مسخ کرانے یا کہیں کہیں الفاظ تبدیل کرانے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔ وانکھیڈے پر ایک سنگین الزام یہ بھی ہے کہ ان کے عالمی ڈرگس مافیا سے تعلقات ہیں ۔ معاملہ سنگین ہے ،اور غور کریں تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بےقصوروں کو پھنسانے کے لیے ایجنسیاں اور پولیس اہلکار ہر حد کو پار کر سکتے ہیں ۔اس معاملے کا ایک پہلو سیاسی ہے ،کہا جا رہا ہے کہ زوفرانی ٹولہ شاہ رخ خان کو ’ سبق ‘ سکھانا چاہتا تھا اور اس نے وانکھیڈے کو استعمال کیا۔ نواب ملک کے مطالبے کی ہر ایک کو حمایت کرنی چاہیے کہ اس معاملہ کی پوری سنجیدگی سے تفتیش ہو تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔اور بے قصور کسی بھی حال میں پھنسائے نہ جا سکیں ،کیونکہ ان کے پیچھے نہ کوئی شاہ رخ خان ہوتا ہے ، اور نہ ہی مکل روہتگی جیسے بڑے وکیل ،اور نہ ہی عدلیہ کو ان سے کوئی ہمدردی ہوتی ہے ،بالخصوص نچلی عدالتوں میں ۔