تحریر: مولانا ابوالحسن علی حسنی ندویؒ
افسوس ہے کہ ہمارے ہندوستان کے بہت سے اہلِ علم عالم عربی کے جدید تغیرات اور تازہ واقعات سے پورے طور پر واقف نہیں ، ان کو اندازہ نہیں کہ اِس مدت میں وہاں کیا فکری اور ذہنی انقلاب رونما ہوگیا اور معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ، ان کا ذریعہ معلومات زیادہ سے زیادہ مصر وشام کے چند مذہبی رسالے اور علمی و فقہی تصنیفات ، یا وہ معلومات ہیں جن کی ان ملکوں کے سفارت خانے اشاعت کرتے رہتے ہیں، ہمارے ملک کے بہت سے علماء کی سطحی قسم کی دلچسپیاں اِتنی بڑھ گئی ہیں کہ ان کو فکر و مطالعہ اور روزمرہ کے واقعات و حقائق کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کا موقع نہیں ملتا ، اس کا نتیجہ ہے کہ ان کو بہت سے انقلابات کی اُس وقت خبر ہوتی ہے جب وہ اپنے نقطہ عروج پر پہنچ جاتے ہیں اور ان کے فطری نتائج ظاہر ہونے لگتے ہیں ، یہی معاملہ ’ترکی‘ کے انقلاب کے موقع پر پیش آیا کہ ہمارے علماء ، عرصہ تک’کمال اتاترک ‘ کو اسلام کابطلِ اعظم اور مجددسمجھتے رہے اوراُن کو اُس کے دور رس اقدامات اور’ترکی‘ کو مغرب کے سانچے میں ڈھالنےکی کوششوں کا علم اُس وقت ہوا جب وہ اپنی آخری شکل کو پہنچ گئیں، اور اِس کا خطرہ محسوس ہونے لگا کہ ’ ترکی‘ کا رشتہ عالمگیر اسلامی برادری یہاں تک کہ اپنے ماضی اور اپنی قدیم ثقافت سے بالکل منقطع ہوجائے گا۔ ‘‘
(عالم عربی کاالمیہ:صفحہ 148)