مولانا عبدالحمید نعمانی
کوئی بھی سماج ہو، اس میں کچھ علائم و اشخاص کی تکریم و تعظیم کا لازما ًلحاظ رکھا جاتا ہے، اس کے بغیر سماج کو پاکیزگی وخیر کی طرف نہیں لے جایا جاسکتا ہے اور نہ اس کے لیے راہ ہموار ہوسکتی ہے، اس کے پیش نظر آدرش کو سامنے رکھنے اورلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ برہمن وادی سماج اب تک کامل جامع آئیڈیل،اتھارٹی کے طور پر کسی نظریہ ونظام حیات کو پیش کرنے میں ناکام رہا ہے، اس خلاء نے اسے منفی راستے پر ڈال دیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جارحانہ اور توہین و تضحیک کے لیے بھی سناتن سنسکرتی میں کوئی جگہ نہیں ہے ،اس بات کو آر ایس ایس کے بانی ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈگیوار اوراس کے سب سے بڑے فکری و نظریاتی رہ نما، مادھوسداشیوگولولکر بھی اچھی طرح سمجھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے ہندوتو کی جارحانہ و منفی تحریک تو چلائی اور ہندو راشٹر کے قیام کے لیے سدا کوشاں رہے لیکن اسلام کی تعلیمات و احکام کو نشانہ بنانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرکسی طرح کی غیر ذمے دارانہ تنقید و تبصرے سے بھی پوری طرح گریز کیا ،توہین و تضحیک کی بات تودور کی ہے۔ حالاں کہ ڈاکٹر ہیڈگیوار اور گروگولولکر کے سامنے آریا سماج اور رنگیلا رسول، بویا پیڑببول کا جیسی کتابیں لکھنے والوں کی پوری سرگرمیاں اور تاریخ موجود تھی، دیانند سرسوتی کی ستیارتھ پرکاش میں جس طرح بے بنیاد قسم کے تنقید و تبصرے کیے گئے ہیں، ان کا معقول و علمی جوابات مولانا ثنااللہ امرتسری ؒنے حق پرکاش لکھ کر ایک طرح سے دیا نند سرسوتی کے ناقص مطالعے اسلامی تعلیمات سے بے خبری اور ذہنی کجی کو پوری طرح بے نقاب کردیا تھا، مولانا امرتسریؒ نے رنگیلا رسول کا جواب مقدس رسول رقم کرکے تضحیک پسندوں کو خاک نامرادی چٹادی تھی، لیکن بعد کے دنوں میں پیدا ہونے والے ہندوتووادی، مسلم علما و محققین کے جوابات سے قطعی طورسے نابلد واقع ہونے کے سبب پرانی باتوں کی جگالی کرنے میں اب تک لگے ہوئے ہیں۔ غالبا آرایس ایس کے بانی ڈاکٹر ہیڈگیوار اورگرو گولولکر اور دیگر سنگھ سر سنچالکوں کے سامنے گاندھی جی جیسے سنجیدہ اشخاص کا رول رہا ہوگاجنھوں نے دیانند سرسوتی اور ان کی کتاب ستھیارتھ پرکاش سے ناپسندیدگی و ناراضی کا اظہار کیا تھا، اس سے آریا سماجی اورتحریک سے متاثر افراد، گاندھی جی سے بڑے ناراض رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں سنجیدہ علمی و نظریاتی بحث کے بجائے فرقہ وارانہ تصادم و تضحیک کو فروغ ملا۔ ایسی صورتحال میں باہمی بہتر تعلقات کا قیام اور توہین وتکریم میں آزادانہ انتخاب کی راہ ہموار نہیں ہوپاتی ہے اور خیر کو اختیار کرنے اورمذہب پر عمل سے زیادہ نعرے پر توجہ مرکوز ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ کسی بھی سماج کے لیے مضر اور نظریاتی واخلاقی طور سے اسے دیوالیہ بنا دیتا ہے، اس کا احساس غالبا آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ ڈاکٹرموہن بھاگوت کو ہورہا ہے ،انہوں نے حال ہی میں ایک خطاب میں کہا:
ــــــ’’ہم ان دنوں جے شری رام کا نعرہ بہت جوش سے لگاتے ہیں، اس میں کچھ برا نہیں ہے لیکن ہمیں ان کے نقش قدم پر بھی چلنا چاہیے، دنیا کے تمام ممالک میں جتنی عظیم شخصیات ہوئی ہوں گی اتنی ہمارے ملک میں دوسوبرسوں میں ہوئی ہیں، لوگ ایسی عظیم شخصیات کی پوجا، یوم پیدائش، جے جے کار، یہ سب کریں گے جیسے ابھی بڑے زور سے جے شری رام ہم کہتے ہیں، ہمیں کہنا بھی چاہیے۔ لیکن شری رام جیسا ہونا بھی چاہیے، ہم سوچتے ہیں کہ وہ تو بھگوان تھے، ارے بھرت جیسے بھائی سے شری رام ہی پریم کریں گے ہم کیوں کریں گے۔ کیوں کہ ہم نہیں کرسکتے ہیں۔ عام آدمی کا یہی تاثروردعمل ہوتا ہے‘‘(آج تک 21 نومبر2021)
ایسا ہندو سماج میں ہوا کیوں کہ رام چندر کے نام کا لوگ نعرہ تو لگاتے ہیں، لیکن ان کے نقش قدم پر چلنے پرکوئی توجہ نہیں دیتا۔ خدا ہونے کی صورت میں اس جیسا ہونے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ خدا کا کوئی نقش قدم کہاں ہوتا ہے کہ اس پرآدمی چلے، خدا انسانی سماج کے لیے معبود ہوسکتا ہے۔ آئیڈیل نہیں اس کی طرف ڈاکٹربھاگوت توجہ تو دلانا چاہتے ہیں لیکن مخصوص تصورات پر تشکیل پاچکے سماج کے برخلاف پوری بات کھل کر کہنا نہیں چاہتے ہیں، جنہوں نے رام جی کو آدرش کے روپ میں پیش کیا انہوں نے آدرش کے تقاضوں اورانسانی سماج کی ضرورتوں کے مطابق ان کی عظیم شخصیت اور تعلیمات اور نمونہ عمل کو سامنے لانے کا کام نہیں کیا، ڈاکٹربھاگوت اور دیگر بہت سے لوگ، رام چندر کو خود عظیم شخصیات کے طور پر پیش کرتے ہیں، مگر ان کو ایسی حیثیت و صورت میں پیش کرتے ہیں کہ سماج سے آدرش ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ آرایس ایس کے بانی ڈاکٹرہیڈگواراچھی طرح سمجھتے تھے کہ عظیم شخصیات کو انسانی زمرے سے باہر کرنے کے بعد ان کے نقش قدم پرچلنے کی بات زیادہ بامعنی نہیں رہ جاتی۔ اس پر عموماً گذشتہ کچھ برسوں سے، خصوصا جب سے رام کے نام پرمندر تعمیر تحریک شروع ہونے کے بعد سے پردہ ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے، ڈاکٹر ہیڈگیوار، رام، کرشن اور دیگر عظیم شخصیات کو معبود اوربھگوان کے زمرے میں رکھنے کے خلاف تھے۔ آزادی سے پہلے ان کا یک خطاب، ’’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ تتوبیوہارـ‘‘ کے نام سے سنگھ کے اشاعتی ادارہ لوک پرکاشن، سنسکرتی بھون راجندر نگر لکھنو سے کتابی شکل میں شائع ہوا تھا، ہمارے سامنے 1997 کا اڈیشن ہے۔ ڈاکٹر ہیڈ گیوار نے اس میں آدرش شخصیات کے لیے جن خصوصیات و اوصاف کا ذکر کیا ہے، وہ تقریبا اسلامی تصور نبوت و رسالت سے ملتے جلتے ہیں، غالبا اسی لیے اس خطاب کو منظر عام سے تقریبا غائب کردیا گیا ہے۔ اس کے پیش نظر ہم نے وقت کا تقاضا اور ضرورت سمجھتے ہوئے 300 صفحات پر مشتمل اپنی کتاب’’ سنگھ بانی ڈاکٹر ہیڈگیوار، حیات و تحریک‘‘ میں خطاب کے ضروری حصے اور نکات کو شامل کردیا ہے۔ ڈاکٹر ہیدگیوار نے کہا ہے کہ عظیم شخصیات کے سلسلے میں کچھ غلط تصورات سماج میں قائم ہوگئے ہیں۔ رام ،کرشن جیسے کامل انسان کو ایشیور یا اوتار کے زمرے میں ڈھکیل کر ہم ایسا سمجھ لیتے ہیں کہ ان کی خوبیوں کو اپنانا ہماری طاقت سے باہر ہے۔ احمقانہ کجی سے سمجھ لیتے ہیں کہ گرنتھوں، رامائن، مہابھارت، گیتا پڑھنے کا مقصد خوبیوں کو اپنانا نہیں بلکہ ثواب کمانے اور نجات کے لیے ہے جہاں کہیں بھی کوئی باکردار یا عظیم ذمے دار فکر کا حامل انسان پیدا ہوا کہ بس ہم اسے اوتاروں کی صف میں ڈھکیل دیتے ہیں اور اس پر خدائی لادنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے ہیں۔ ہماری ہندو قوم کے زوال کے اسبا ب میں سے ایک سبب یہ جذبہ بھی ہے ،اس کے تحت خوبیوں کو اپنے عمل میں نہیں لاتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں مذکورہ کتاب کا صفحہ 48 تا 52)
مسلم سماج کے مؤقر علماء صوفیا نے بھارت کی معروف شخصیات کو قابل احترام قرار دیتے ہوئے انہیں عظیم رہنما شخصیات کے زمرے میں ہی رکھا ہے اس سلسلے میں حضرات شیخ احمد سرہندیؒ، مرزا مظہر جان جانؒ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ، قاضی ثنااللہ پانی پتیؒ، شاہ عبدالرحمن چشتیؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا مناظراحسن گیلانیؒ کے اسمائے گرامی خاص طورسے لیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں اور بیانات میں رام چند، شری کرشن اور گوتم بدھ کے متعلق اپنے زمانے کے ہادیوں میں سے ہونے کی بات کہی ہے۔ حضرت نانوتویؒ کی ہدایت تھی:
’’ ہندو اقوام کے بڑوں کو مثل رام چندر جی اور کرشن جی کو نام لے کرکبھی برا نہ کہو اور کوئی توہین آمیز کلمہ ان کی شان میں نہ کہو ممکن ہے کہ اپنے وقت میں یہی مردان حق ہوں جو بطور ہادی نذیر بھیجے گئے اور شرائے حق لے کر ہندوستان کی اصلاح کے لیے آئے ہوں لیکن مرور ایام سے بعد کے لوگوں نے ان کی شریعتیں مسخ کردی ہوں۔‘‘
(اسلام اور فرقہ واریت صفحہ 26 مطبوعہ تاج المعارف دیوبند 1956)
بھارت میں بہت سے سنجیدہ، دیانت دار اورذی علم غیر مسلم حضرات نے بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق قابل احترام جذبے و رویے کا اظہار کیا ہے اس کی نمایاں مثال ڈاکٹر وید پرکاش اورا ن کی کتاب کلکی اوتار ہیں۔ بھارت میں محترم شخصیات کے سلسلے میں گزرتے دنوں اور وقت کے تقاضوں کے تحت ان کے نقوش قدم پرچلنے کا مسئلہ ہے۔ چاہے عظیم شخصیات کو انسانی زمرے میں رکھا گیا ہو یا انسانی زمرے سے باہر کردیا گیا ہوملک میں تکریم و تعظیم کی روایت ختم نہیں ہوئی ہے لیکن کچھ عناصر جاری روایت کو ختم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ تاہم یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔ پاپ سے پریم تک رسائی کے بعد ہی آدمی پرکاش (روشنی) سے مل سکتا ہے، آدرش کے سلسلے میں سوچنے سے ہی سوچوں میں اجالے پھیل جاتے ہیں، ایسا تکریم سے ہوتا ہے نہ کہ توہین سے، اس کے پیش نظر توہین و تکریم کے درمیان انتخاب کبھی مشکل نہیں رہا ہے۔
[email protected]