دنیا ایک انتہائی خطرناک موڑ پر کھڑی ہے، جہاں فلسطین سے لے کر لبنان اور ایران تک کشیدگی بڑھ رہی ہے، اور تیسری عالمی جنگ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ اسرائیل کی مسلسل جارحیت اور خطے کے مختلف ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی دشمنی نے صورتِ حال کو اور سنگین بنادیا ہے، لیکن عالمِ اسلام حیران کن خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ غزہ میں 7 اکتوبر 2023ء سے اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک کم از کم 50 ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں نہتے بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے، جبکہ ایکلاکھ کے قریب زخمی ہیں۔ حال ہی میں امریکی دفاعی مرکز پینٹاگون کی جانب سے یہ انکشاف ہوا کہ اسرائیل اور امریکا کے درمیان ایران پر ممکنہ حملے کے حوالے سے مشاورت جاری ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ ایک ایسا اشارہ ہے جو پورے خطے کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ایران کی طرف سے بھی سخت ردعمل سامنے آیا ہے، جس میں اسرائیل کو خبردار کیا گیا ہے کہ کسی بھی حملے کا غیر روایتی جواب دیا جائے گا۔ فلسطینی عوام پر جاری ظلم و ستم کی داستانوں میں 10 سالہ راشا العریر کی وصیت نے فلسطینیوں کی عظمت اور ان کی بامقصد جدوجہد کو اور بڑا کردیا ہے کہ جس نے اپنی شہادت سیقبل اپنے والدین سے کہا کہ وہ اس کی موت پر نہ روئیں، بلکہ اس کے کپڑے اور کھلونے ضرورت مندوں میں تقسیم کریں۔ یہ ایک معصوم بچی کی آواز ہے جو دنیا کے سامنے فلسطینیوں کی لاچاری اور بے بسی کو بیان کرتی ہے، لیکن افسوس کہ اسلامی دنیا کے حکمرانوں کے کانوں تک یہ آواز نہیں پہنچ رہی۔ سارے ظلم و ستم اور ہر لمحہ اسرائیلی دہشت گردی، سفاکی، جارحیت اور مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی پابندیوں کے باوجود فلسطینیوں نے اپنا مذہبی اور قانونی حق استعمال کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے احاطے میں نماز جمعہ ادا کی۔ بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان نمازیوں میں مذہبی جذبوں سے سرشار نوجوانوں اور بزرگوں کے علاوہ بچے بھی بڑی تعداد میں شریک تھے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل کو امتِ مسلمہ کا مشترکہ دشمن قرار دیتے ہوئے مسلم اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اگر متحد ہوجائیں تو طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا کب اس اتحاد کو عملی جامہ پہنائے گی؟ آج جب فلسطین، لبنان، یمن اور دیگر مسلم ممالک میں جنگی حالات ہیں، تو مسلم ممالک کے درمیان اتحاد اور اتفاق کا فقدان کیوں ہے؟ سعودی عرب اور ایران جیسے بڑے ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں بہتری کی خبریں ضرور سامنے آئی ہیں، لیکن یہ بات واضح ہے کہ ان ممالک کے درمیان باہمی تعاون سے خطے کے مسائل کا حل نکلنا ابھی تک ایک خواب ہی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کا یہ کہنا کہ سعودی عرب دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے، ایک مثبت قدم ضرور ہے، لیکن اس کے لیے عملی اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔ عالمی طاقتیں بالخصوص امریکا اور اسرائیل خطے میں اپنی مرضی کی پالیسیاں نافذ کرنے میں مصروف ہیں۔ امریکا کا اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ کسی بھی وقت ایران پر حملہ ہوسکتا ہے۔ خطے کی صورتِ حال بتاتی ہے کہ جنگ کی آگ کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے۔ پورا خطہ ایک بڑی جنگ کے دہانے پر ہے۔۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان تمام حالات میں عالم اسلام کی عملی خاموشی سب سے زیادہ تشویش ناک ہے۔ مسلم دنیا کی قیادت نہ صرف اسرائیلی جارحیت کے خلاف متحد نہیں ہو پا رہی، بلکہ اندرونی اختلافات اور مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔ جب تک مسلم دنیا اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف متحد ہوکر کھڑی نہیں ہوگی، فلسطین، لبنان اور دیگر ممالک کے مظلوم عوام اسی طرح شہید ہوتے رہیں گے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم ممالک اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ایک مضبوط حکمتِ عملی تیار کریں اور ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے ظالم قوتوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اگر آج مسلمان اس صورتِ حال کا ادراک نہ کرسکے تو آنے والے دنوں میں یہ خاموشی انہیں ایک ایسی جنگ میں دھکیل دے گی جس سے پورا عالم اسلام متاثر ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ مسلم دنیا بیدار ہو، فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہو، اور خطے میں جاری جنگ کے شعلوں کو مزید بھڑکنے سے روکنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ کیونکہ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل ہماری خاموشی تاریخ کے صفحات میں ایک اور سیاہ باب کے طور پر لکھی جائے( جسارت کا اداریہ)