نئی دہلی :
ملک میں کورونا انفیکشن کی دوسری لہر کے درمیان آکسیجن کی قلت ایک بہت بڑا چیلنج بن کر ابھری ہے۔حالانکہ اس سے متعلق اشارے تقریباً ایک سال قبل مل گئے تھے۔ افسران نے نومبر میں اس کا اشارہ دیا تھا۔
’دی انڈین ایکسپریس‘کی رپورٹ کے مطابق2020 میں لاک ڈاؤن کے ایک ہفتہ بعد سینٹر فار پلاننگ کے ذریعہ تشکیل دیئے گئے 11 افسران کے ایک گروپ نے اس کے بارے میں الرٹ کردیا تھا۔ یہ امپاورڈ گروپ 6 (ای جی 6) تھا ، جسے پرائیویٹ سیکٹر ، این جی اوز اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کے لئے تشکیل دیا گیا تھا۔ یکم اپریل 2020 کو ہونے والی دوسری میٹنگ کے دوران گروپ نے آکسیجن کی کمی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔
میٹنگ کی تجویز میں کہا گیا تھا آنے والے دنوں میں ہندوستان کو آکسیجن فراہمی میں کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے سی آئی آئی انڈین گیس ایسوسی ایشن کے ساتھ تعاون کرے گی اور آکسیجن کی فراہمی کی قلت کو کم کرے گی۔ این آئی ٹی آئی آیوگ کے سی ای او امیتابھ کانت کی زیرصدارت اس میٹنگ میں بھارت کے پرنسپل سائنسٹیفک ایڈوائزر کے وجے راگھون ، این ڈی ایم اے کے ممبر کمل کشور اور حکومت ہند کے کئی اکائیوں کے آدھا درجن افسران ،جس میں پی ایم او ، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ وغیرہ سے لوگ شامل تھے۔
گروپ کے ذریعہ اس انتباہ کے بعدفالو اپ میں کیا ایکشن لیا گیا ؟ میٹنگ میں شامل ایک افسر سے یہ پوچھے جانے پرانہوں نے اخبار کو بتایا کہ’طے ہواتھاکہ ڈی پی آئی آئی ٹی اس معاملے کو دیکھے گی۔ریکارڈ بتاتا ہے کہ میٹنگ کے چار دن بعد ایک نو رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی تاکہ کورونا وبا کے بعد کافی مقدار میں میڈیکل آکسیجن فراہم کی جاسکے۔ اس کمیٹی کے چیئرمین ڈی پی آئی آئی ٹی سکریٹری گروپرساد مہاپترا تھے۔
ای جی 6 کے علاوہ پارلیمنٹری اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ہیلتھ نے بھی میڈیکل آکسیجن کی دستیابی کا معاملہ اٹھایا تھا۔ حکومت سے آکسیجن کی پیداوار کو مناسب مقدار میں بڑھانے کے لئے کہا گیا تاکہ اسپتالوں میں طلب کے مطابق اس کو پورا کیا جاسکے۔
ادھر ایک اور انگریزی اخبار ‘’دی ٹیلی گراف‘ نے اطلاع دی ہے کہ بار بار انتباہ دینے کے باوجود مرکزی حکومت کورونا کی دوسری لہر کے لئے تیار رہنے میں ناکام ہوئی۔ اسی رپورٹ میں ، ایک اعلیٰ سرکاری ریسرچ کے حوالے سے اسی رپورٹ میں آگے بتاگیا کہ ملک خود اطمینانی کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے مزید کہا کہ یہ بہت مایوس اور افسوس کی بات ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے اچانک نہیں روکا جاسکتا۔ ایک اور بڑی لہر دستک دے سکتی ہے ، لیکن اس انتباہ کے بعد بھی مزید تیاری نہیں کی گئی۔